إنا لله وإنا إليه رجعون
برصغیر پاک و ہند کے مایہ ناز عالمِ دین اور محقق فضیلۃ الشیخ عزیر شمس ابھي کچھ دیر پہلے مکہ مکرمہ میں وفات پاچکے ہیں. اللہ تعالی مغفرت فرمائے، اور کروٹ کروٹ جنت عطا کرے. بلاشبہ آپ کی وفات سے علم و تحقیق کا ایک ’آفتاب’ غروب ہوگیا. آپ کی نماز جنازہ 17 اکتوبر سوموار کو بعد از نماز فجر مسجد حرام میں ادا کی جائے گی۔
’شیخ مرحوم مئو میں پلے بڑھے، فیض عام میں پڑھے کھیلے، یہیں ان کا بچپن گزرا، ان کے والد محترم مولانا شمس الحق سلفی صاحب رحمہ اللہ جامعہ اسلامیہ فیض عام کے شیخ الحدیث تھے۔ بعد میں جب جامعہ سلفیہ بنارس قائم ہوا تو وہاں منتقل ہوگئے۔ ان کے نام میں “شمس ” ان کے والد کی طرف نسبت ہےـ
ایک سنجیدہ باوقار اور غیرت مند سلیقہ مند سلفی عالم کی جدائی سے آنکھیں اشکبار ہیں‘۔
“مولانا مرحوم بلاشبہ عرب و عجم میں جانی پہچانی شخصیت اور ہمارے اسلاف کی روایات کے امین تھے۔ تحقیق و تنقیح، سادگی و بے تکلفی اور بے نیازی، حق پسندی، مروت و شفقت انکا طرہ امتیاز تھی۔ وہ نا صرف ایک نامور عالم دین تھے، بلکہ وہ ایک محدث بھی، محقق بھی،مستند مؤرخ بھی،نقاد بھی،متکلم و فیلسوف بھی تھے۔ عرب و عجم کے نامور کتب خانوں کی سیر کی، اور ان میں مخفی نوادرات سے خوب آگاہ  رہتے تھے۔ وہ جب اس موضوع پر بات کرتے تھے، تو انکا دماغ ایک چلتا پھرتا کتب خانہ محسوس ہوتا تھا”۔

برطانیہ سے معروف عالم دین حافظ عبد الاعلی درانی آپ کے متعلق لکھتے ہیں:

’’آج بعد نماز عشاء مکہ مکرمہ میں ممتاز محقق داعی درجنوں کتابوں کے مولف علامہ محمد عزیر شمس اس دار فانی کو الوداع کہہ گئے؛ موصولہ اطلاعات کے مطابق علامہ مرحوم کو دل کا دورہ پڑا؛ اور جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ انکے سانحہ ارتحال پر خلیج اور بر صغیر کے علمی و دعوتی حلقے و ادارے سوگوار و غمزدہ ہیں۔
مغربی بنگال میں ١٩٥٧ میں آپ کی پیدائش ہوئی اور عمر کی ٦٥ بہاریں دیکھ کر داعی اجل کو لبیک کہہ دیا – انا للہ و انا الیہ راجعون
آپ نے جامعہ فیض عام مؤ ؛ مدرسہ احمدیہ سلفیہ دربھنگہ ؛ جامعہ سلفیہ بنارس ؛ سے کسب فیض کے بعد جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے بیچلر اور جامعہ ام القریٰ سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی – ڈاکٹریٹ کا رسالہ “ہندوستان میں عربی شاعری – ایک تنقیدی مطالعہ”، بہت عرصہ پہلے آپ نے تیار کیا تھا مگر اس پر مناقشہ نہ ہوسکا۔
آپ عصر حاضر کے مشہور اسکالرز میں سے ایک ہیں جنہوں نے مخطوطات پر جم کر کام کیا ہے ۔ انھیں چھ زبانوں پر عبور تھا جن میں عربی، انگریزی؛ اردو ؛ ہندی ؛ بنگلہ اور فارسی شامل ہیں۔وہ بہت سی کتابوں اور تحقیقات کے مصنف ہیں۔
ان کے والد شیخ شمس الحق السلفی (متوفی 1406) نے انہیں موطا، بخاری اور بہت سی دوسری کتابیں ان مدارس میں پڑھائیں جہاں وہ زیر تعلیم تھے اور ان کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔
ان کے اساتذہ میں شیخ محمد رئیس الندوی ؛ مولانا محمد ادریس رحمانی؛ مولانا عبدالمعید بنارسی؛ مولانا عبدالسلام رحمانی؛ مولانا صفی الرحمان مبارک پوری؛ مولانا عبدالسلام المدنی مولانا عبدالوحید الرحمانی وغیرہ قابل ذکر ہیں’’۔

جامعہ امام (ریاض سعودی عرب کے فاضل) مولانا زین عرفان حفظہ اللہ، آپ سے متعلق اپنے تاثرات کا اظہار یوں کرتے ہیں:

’’دل ماننے کو تیار نہیں، خبر دیکھی دعا کی کہ اللہ کرے جھوٹی ہو پھر یکے بعد دیگرے تصدیق ہوتی گئی۔ ہم یہی کہہ سکتے جو پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: “إن العين لتدمع وإن القلب ليحزن وإنا على فراقك لمحزونون”
کچھ لوگوں کی وفات سو دو سو لوگوں نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے خسارے کا باعث ہوتی ہے، جیسا کہ آپ کی وفات کی الم ناک خبر۔ شیخ محترم ہر سال شیخ ابو ھشام عبد الرحمن صاحب کی دعوت پر ریاض تشریف لاتے۔ گھنٹوں آپ کے ساتھ گزارنے کا موقع ملتا، رات کا کھانا ہم شیخ کے ساتھ کھاتے اور پورے سال کے جمع سوالات شیخ سے کرتے۔
آپ شیخ الإسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد رشید امام ابن القیم پر انسائیکلوپیڈیا تصور کیے جاتے۔
برصغیر پاک وہند کے علماء،کتب اور معلومات ایسے بتاتے جیسے کہیں سے پڑھ کر سنا رہے ہیں، قدیم اسلامی مدارس، ان کے علماء، مختلف مطبعات اور ان سے طبع ہونے والی کتب اور سن طبع سب آپ کے حافظے میں محفوظ تھا۔
غالبا 1985ء میں پاکستان تشریف لائے تھے اور تمام اداروں میں گئے وہ سب باتیں اور شخصیات آپ کے دماغ میں نقش تھیں۔ راولپنڈی کا ذکر ہوا تو جامعہ تدریس القرآن والحدیث کا پوچھنے لگے، اور اس کا نقشہ بتایا گویا کل ہی وزٹ کر کے گئے ہیں، شیخ نصر اللہ بھائی نے ماموں کانجن کا ذکر کیا تو وہاں کے علماء کے نام بتانے لگے۔اتنے قوی حافظے والے اور علم کے حریص انسان بہت کم ہوتے ہیں۔
انتہائی متواضع شخصیت کے مالک تھے، ملاقات ہوئی میں نے اور شیخ نصر اللہ نے بہت اصرار کیا کہ جامعہ معرفہ کے لیے کچھ لیکچرز کو ریکارڈ کروا دیں، بالآخر کہنے لگے “آپ سمجھیں یہ جو آپ کی سکرین ہوتی ہے ناں میں اس کا بندہ نہیں ہوں، میں تصنیف وتالیف کا آدمی ہوں مجھ سے وہ کام لیں جو میرا ہے” پھر مزید کہنے کی ہماری ہمت نہ ہوئی۔
ہر محدث و فقیہ کا نام اور سن وفات ساتھ ذکر کرتے، حتی کہ برصغیر پاک وہند کے بھی معروف علماء وفقہاء کے سن وفات آپ کو یاد اور ہمیشہ مستحضر ہوتے۔اللہ نے آپ کو مخطوطات پڑھنے کی جو صلاحیت عطا کی تھی بہت کم لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے
آپ کی خاص بات کہ جب بھی آپ سے کوئی مشورہ کیا، آپ مشورہ نہیں دیتے تھے بلکے ہاتھ پکڑ کر درست راہ پر چلاتے تھے، میں نے پوچھا شیخ صاحب کلیہ مکمل ہو گیا کیا ماجستیر کے لیے دعوة میں جانا چاہیے کہنے لگے: “آپ داعی ہیں آپ کو جانا ہی دعوہ میں چاہیے تاکہ جو کر رہے ہیں پڑھائی بھی اسی فن میں ہو”
پھر فرمانے لگے “جاؤ ماجستیر میں اور اپنے علماء کے بارے میں لکھو مولانا اسماعیل سلفی صاحب کی دعوتی زندگی کے بارے میں لکھو انہیں پڑھنے کا موقع بھی ملے گا اور تمہارا موضوع بھی مکمل ہو جائے گا”
اور الحمد للہ انہی کے مشورے سے میرا ماجستیر اور مولانا اسماعیل سلفی صاحب پر مقالہ مکمل ہوا۔
اللہ آپ پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، اور آپ کی مساعی جمیلہ کو قبول فرمائے’’۔

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی حفظہ اللہ نے آپ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار اس پیرائے میں کیا ہے:

’’ایک بڑے محقّق کی وفات’’

’’گزشتہ شب ایک بجے اچانک آنکھ کھلی، موبائل چارجنگ کے لیے لگا رہ گیا تھا _ اسے اٹھایا، دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا کہ مختلف گروپس اور سائٹس پر شیخ محمد عزیر شمس کی وفات کی خبر گردش کررہی تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
شیخ عزیر شمس کی ولادت 1957ء میں مغربی بنگال میں ہوئی تھی _ 1976 میں انھوں نے جامعہ سلفیہ بنارس سے فراغت پائی _ پھر سعودی عرب چلے گئے ، جہاں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے 1981 میں گریجویشن اور جامعہ ام القریٰ سے 1986 میں پوسٹ گریجویشن کیا _ پی ایچ ڈی بھی کی _ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان ‘الشعر العربي في الهند – دراسة نقدية’ تھا _
شیخ عزیر شمس سے میرا تعارف تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل ہے _ علی گڑھ میں مولانا رفیق احمد رئیس سلفی اور دہلی میں مولانا ارشد سراج الدین مکّی ، جو میرے قریبی دوستوں میں سے ہیں ، ان سے ملاقات کا واسطہ بنتے تھے۔ شیخ سے بارہا ملاقاتیں رہیں۔ دہلی میں وہ جماعت اسلامی ہند کے مرکز بھی تشریف لائے اور ملاقات کا شرف بخشا۔

وہ ‘ تراث اسلامی’ پر معلومات کا انسائیکلوپیڈیا تھے۔ عرب و عجم کی بڑی لائبریریوں میں محفوظ مخطوطات سے وہ خوب آگاہ تھے۔ کسی موضوع پر بھی وہ بات کرتے تو چلتا پھرتا کتب خانہ معلوم ہوتے تھے۔ وہ تواضع ، سادگی اور انکساری کا اعلیٰ نمونہ تھے۔ کوئی اجنبی اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ سادہ سا نظر آنے والا یہ شخص علم و تحقيق کے اتنے بلند مرتبے پر فائز ہے۔
شیخ عزیر سے میری کئی یادیں وابستہ ہیں _ مولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ (م1930ء) کے بعض افکار کے نقد و جائزہ پر مبنی میری کتاب ‘ نقدِ فراہی’ طبع ہوئی تو میں نے اسے برائے تبصرہ دو ماہی ‘اردو بک ریویو ‘ نئی دہلی میں بھیج دیا _ ان دنوں برادر مکرّم مولانا ارشد سراج الدین مکی اس کی مجلسِ ادارت سے وابستہ تھے – انھوں نے اس کتاب کو تبصرہ کے لیے شیخ کے پاس بھیج دیا۔ انھوں نے اس پر بہت عمدہ تبصرہ لکھا۔ بعد میں یہ تبصرہ ان کے مجموعۂ مقالات میں بھی شامل ہوا۔ ‘ نقدِ فراہی’ میں شامل ایک مضمون میں میں نے مولانا فراہی کی تفسیر سورۂ فیل کا جائزہ لیا تھا۔

شیخ عزیر نے ایک ملاقات میں بتایا کہ وہ ان دنوں ڈاکٹر اجمل ایوب اصلاحی ندوی کے ساتھ مل کر شیخ علامہ عبد الرحمٰن بن یحیی معلّمی یمانی (م1966ء) کی تصانیف کی تحقیق و تدوین و طباعت کے ایک پروجیکٹ پر کام کررہے ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ‘رسالة في التعقيب على تفسير سورة الفيل للمعلم عبدالحميد الفراھی کے نام سے ہے ، جس کی تحقیق کی خدمت ڈاکٹر محمد اجمل اصلاحی نے انجام دی ہے۔ میں نے خواہش کی کہ مجھے یہ کتاب فراہم کردیں تو میں اس کا خلاصہ کرکے سہ ماہی تحقیقات اسلامی علی گڑھ میں شائع کروادوں گا۔ انھوں نے مجھے یہ کتاب بھیج دی، اس کا خلاصہ تحقیقات اسلامی جنوری _ مارچ 2015 کے شمارے میں طبع ہوا۔
28 جولائی 2018 کو اسلامک فقہ اکیڈمی نئی دہلی میں ترکی کے نام ور محقق ڈاکٹر فؤاد سزگین پر ( جن کا کچھ ہی دنوں قبل 30 جون 2018 انتقال ہوا تھا) ایک مجلسِ مذاکرہ رکھی گئی۔ اس میں ڈاکٹر وارث مظہری، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد نئی دہلی اور ڈاکٹر محمد مشتاق تجاروی، اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے مقالات پیش کیے گئے۔ میری صدارت تھی۔ اس دن شیخ عزیر دہلی میں موجود تھے، چنانچہ انھیں بھی دعوت دی گئی، وہ تشریف لائے تو ان کی موجودگی سے فائدہ اٹھاکر ان سے بھی کچھ اظہارِ خیال کرنے کی خواہش کی گئی۔ انھوں نے ڈاکٹر فؤاد سزگین سے اپنی ملاقاتوں کے بعض احوال، ان کے علمی و تحقیقی کاموں کی اہمیت اور اندازِ تحقیق کے بارے میں بڑی قیمتی باتیں بتائیں، اور ان کی بعض تحقیقات پر نقد بھی کیا۔

شیخ عزیر نے عربی کتابوں کی تحقیق و تدوین کے میدان میں غیر معمولی کام کیا ہے۔ اردو زبان میں ان کی تحریریں کم ہیں، ان کا مجموعہ ‘مقالات مولانا عزیر شمس’ کے نام سے شائع کردیا گیا ہے۔ ایک برس قبل برادر مکرم مولانا ارشد سراج الدین مکی نے اس کا ایک نسخہ مجھے فراہم کیا تھا۔ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اس پر تعارف و تبصرہ اپنے فیس بک پیج پر لکھ دوں گا، لیکن مختلف اسباب سے یہ کام ٹلتا رہا اور اب حسرت باقی رہ گئی کہ ان کی حیات میں میں اس کتاب پر کچھ نہ لکھ سکا۔ اس مجموعۂ مقالات میں بعض اکابر ملت کی خدمات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ برصغیر میں عربی زبان اور ادب کی تعلیم کا جائزہ، قصیدہ ‘بانت سُعاد’ کی استنادی حیثیت، ذخیرۂ احادیث کی تدوین، انگلیوں پر گننے کا پرانا طریقہ وغیرہ جیسے وقیع مقالات ہیں۔ اس میں ان کی بعض وہ تحریریں بھی شامل ہیں جو انھوں نے مختلف کتابوں پر بطور مقدمہ لکھی ہیں اور چند مضامین بعض علمی شخصیات کی وفات پر ان کے بارے میں تاثرات اور ان کی خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ دے ، آمین یا رب العالمین !’’

پاکستان کے معروف سلفی محقق اور عالمِ دین ڈاکٹر خالد ظفر اللہ حفظہ اللہ فرماتے ہیں:

’’انا لله و انا اليه راجعون، رات جب سے شيخ عزير شمس رحمه الله كى رحلت كى افسوسناک خبر سنی ہے انتہائی دلی صدمہ پہنچا۔ ایسی عبقری شخصیت خال خال پیدا ہوتی ہے۔ راست فکر، کثیر الجہت مطالعہ، جملہ علوم ہمہ وقت مستحضر، انتہائی بیدار مغز ذہن و دماغ، منکسر المزاج۔ نا غرور علمی نا بخل کتاب، ہمہ وقت فروغ علم میں کوشاں۔ سادگی کا پیکر مگر علوم و فنون کا کوہ گراں۔ تحقیق کے رسیا، کتابی کیڑے اور واقعتا ہر فن مولی۔ اب اپنے مولی کے حضور، اللہم اغفر لہ و ارحمه و عافه و اعف عنه و اكرم نزله و وسع مدخله وادخله في عبادك الصالحين و اجعله في زمرة المساكين و اجعله مكانه في اعلى عليين في جنات الفردوس’’۔

کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر، اور جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے سینئر استاد ڈاکٹر فیض الابرار حفظہ اللہ، اپنی ایک ٹیلفیونک گفتگو کا تذکرہ کرتے ہیں، جس میں انہوں نے شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ سے ایک موضوع سے متعلق رہنمائی کی درخواست کی تھی، ڈاکٹر صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے شیخ رحمہ اللہ سے عرض کیا:

’’ہماری ڈیپارٹمنٹل سٹڈیز نے مجھے ایم فل لیول کے علم المخطوطات پڑھانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ میں اپنے کورس ورک کے بعد دوبارہ کبھی اس علم کو نہ پڑھا اور نہ ہی پڑھایا۔ لہذا آپ سے کچھ رہنمائی درکار ہے۔
شیخ محترم نے پوچھا کہ کس مضمون سے متعلق علم المخطوطات پڑھانا ہے ۔
میں نے بتایا کہ عربی زبان و ادب۔
پھر شیخ محترم رحمہ اللہ کی گفتگو شروع ہوئی۔ اور میں اس کے نکات نوٹ کرتا گیا۔ تقریبا پندرہ منٹ کی گفتگو تھی۔ لیکن علم کا سمندر تھا اور میرے لیے حیرانی اس امر میں تھی کہ اس قدر فنی و علمی موضوع پر معلومات کا بحوالہ استحضار، اللہ اکبر کبیرا۔
یوں لگ رہا تھا جیسا کہ سامنے کتاب رکھی ہو اور وہ پڑھ رہے ہوں۔
اس کے بعد بھی تین سے چار مرتبہ میرا ان سے اسی حوالے سے رابطہ ہوا اور آخری رابطہ میں، میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کاش میں آپ سے ملاقات کر سکوں اور کچھ عرصہ باقاعدہ استفادہ کر سکوں۔ تو کہنے لگے یہ استفادہ کر تو رہے ہیں آپ۔ اور جہاں تک بات ہے ملاقات کی تو آ جائیں، ملاقات ہو جائے گی۔
بس میں ارادہ کرتا ہی رہ گیا پروگرام بناتا ہی رہ گیا اور اللہ کا فیصلہ آگیا ، انا للہ وانا الیہ راجعون’’

پاکستان گوجرانوالہ کے سلفی عالم دین حافظ شاہد رفیق حفظہ اللہ کی شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ کے ساتھ ہونے والی آخری گفتگو بھی دلچسپ ہے، جو کہ مکالمے کی صورت میں پیشِ خدمت ہے:

’’چند روز قبل (26 ستمبر 2022ء بوقت 9 بجے شب) کو حافظ شاہد صاحب نے شیخ عزیر شمس رحمہ اللہ سے پوچھا کہ آج کل آپ کیا کر رہے ہیں؟
شیخ عزیز:
آج کل مکتبة الحرم المكي کے ناقص الاول والآخر مخطوطات کی فہرست سازی اور ایک طبی کتاب تالیف ابن البیطار کی تحقیق کا مکلف ہوں، جس کا منفرد نادر اور قدیم مخطوطہ مکتبہ میں ہے۔ آفس کے وقت میں وہیں ہوتا ہوں۔ گھر پر پچھلی بعض کتابوں کے مراجعہ اور تقدیم میں مشغول ہوں تاکہ ان کی اشاعت ہو سکے۔
حافظ شاہد:
گھر والے کاموں میں کوئی قریب الاختتام کام؟
شیخ عزیز:
معیار الحق اور کتاب المواعظ لابی عبید تقریبا تیار ہے۔ روائع التراث ج2 اور شاہ ولی اللہ، محمد حیات سندھی اور عظیم آبادی کے مجموعے کمپوز شدہ ہیں۔ ان کے مراجعہ اور تصحیح میں لگا ہوں۔ میاں صاحب کے فتاوی کی تحقیق ابھی مکمل نہیں ہوئی۔
حافظ شاہد:
اللہ تعالی آپ کو صحت وعافیت سے رکھے اور سبھی مشاریع علمیہ کی تکمیل کی توفیق عطا فرمائے۔
شیخ عزیز:
آمین یا رب العالمین۔ اللہ تعالٰی آپ کی دعا قبول کرے اور آپ کو بھی مزید علمی کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ اچھا کرتے ہیں کہ ایک کام میں ہاتھ لگاتے ہیں اور پایہ تکمیل تک پہنچا دیتے ہیں۔ میں کئی کتابوں بلکہ مجموعہ ہاے رسائل میں ایک ساتھ لگ گیا جس کی وجہ سے انہیں آج تک مکمل نہ کر سکا۔ اب سوچتا ہوں کہ ایک ایک کو نپٹاوں۔ اللہ تعالٰی ہمت دے۔ ورنہ اب تو بہ قول سلامة بن جندل:
ولى الشباب حميدا ذو التعاجيب.
حافظ شاہد:
اللہ تعالی نے آپ کو ہزاروں نوجوانوں کے لیے مثال اور راہنمائی کا ذریعہ بنایا ہے۔ ان شاء اللہ آپ کے دیگر علمی اعمال کے ساتھ یہ عمل بھی صدقہ جاریہ بنے گا‘‘۔

انڈیا کے معروف نوجوان عالمِ دین ابو الفوزان کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

’’رب العالمین شیخ کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے، آمین ۔ علم و تحقیق کی دنیا میں شیخ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے۔ کل محترم سرفراز فیضی کی زبانی شیخ رحمہ اللہ کی وفات کی خبر سنی تو یقین نہیں آرہا تھا کہ اچانک یہ کیسے ہوگیا۔ ممبئی میں شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ ایک طویل ملاقات ہوئی اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا افسوس یہ پہلی ملاقات آخری ملاقات ہی رہی۔
کرونا کے بعد سے اب تک صورت حال یہ ہے کہ ایک ایسی بڑی تعداد دنیا سے رخصت ہوچکی ہے جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ اتنی جلد چل بسیں گے ، بالخصوس وہ نوجوان احباب و اہل علم جن کے ساتھ ایک طویل مدت سے اٹھنا بیٹھنا تھا ، ان کا بھی اچانک ساتھ چھوڑجانا بڑی شدت سے احساس دلارہا ہے اگلے ہر پل موت کے لئے تیاررہو۔ اگر تمہیں کچھ اور مہلت ملی رہی ہے تو اسے غنیمت جانو اور ایک ایک منٹ کا صحیح استعمال کرو ، کوشش یہ کرو کہ اپنا قیمتی وقت ایسے کاموں میں صرف ہو جو صدقہ جاریہ بن سکیں اور سفر آخرت میں ساتھ دے سکیں’’۔

شیخ عزیز شمس رحمہ اللہ کے علمی دروس اور لیکچرز

شیخ مرحوم کا زیادہ کام تحریری صورت میں ہی ہے، لیکن آخری ایام میں بعض احباب کے توجہ دلانے پر، انہوں نے دروس وغیرہ بھی ارشاد فرمانا شروع کردیے تھے، جن سے شیخ رحمہ اللہ کی تبحر علمی، وسعت فکری اور دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے۔ جامعہ امام (ریاض سعودی عرب) کے فاضل مولانا سیف اللہ ثناء اللہ حفظہ اللہ نے ان کئی ایک دروس کی ایک فہرست مرتب کی تھی، جنہیں ذیل میں درج کیا جارہا ہے:

1- سیرت نبوی کے متعلق علم کیسے حاصل کریں؟
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/1326624980750776/
2- تاریخ پر گفتگو1
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1457618494318090&id=100002098614713
3- تاریخ پر گفتگو2
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1457663424313597&id=100002098614713
4- اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیوں اور کیسے ؟
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1459892090757397&id=100002098614713
5- ہندوستانی تاریخ پر گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1462302953849644&id=100002098614713
6- حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم پر گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1551270808286191&id=100002098614713
7- تدوین حدیث پر لائیو گفتگو
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/1553152048098067/
8- “نقد حدیث، تاریخ، حقیقت اور شبہات کا جائزہ ” کے موضوع پر لائیو گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1554905121256093&id=100002098614713
9- “فہم حدیث کے مختلف مکاتب فکر ” کے موضوع پر لائیو گفتگو
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/1557538897659382/
10- انکار حدیث کے موضوع پر گفتگو
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/1559524714127467/
11- بر صغیر میں خدمات حدیث پر لائیو گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1564024473677491&id=100002098614713
12- “عربی ادب کا مطالعہ کیسے کریں “کے موضوع پر
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/1668115436601727/
13- جدید عربی ادب پر لائیو گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1675771862502751&id=100002098614713
14- ” نزول قرآن: کیفیات، شکوک و شبہات، اعراب اور جمع و تدوین ” گفتگو 1
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/2022441614502439/
15- ” نزول قرآن: کیفیات، شکوک و شبہات، اعراب اور جمع و تدوین ” گفتگو 2
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/2022539427825991/
16- شيخ الاسلام ابن تيمية کی مصنفات اور ان کا منھج

17- برصغیر میں عقیدہ سلف کا پرچار اور علمائے اہل حدیث کی خدمات

YouTube player

18- سوشل میڈیا اور نوجوان

19- سوال و جواب کی نشست https://m.youtube.com/watch?v=HtzZC4yGu2s
20-“معارف ابن تیمیہ کی عصری معنویت اور استفادہ کے طریقے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2239629732783625&id=100002098614713
21-شیخ محمد عزیر شمس حفظہ اللہ سے مختلف علوم وفنون سے متعلق سوالات وجوابات کا سلسلہ
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2228488560564409&id=100002098614713
22- مخطوطات کی تحقیق پر لائیو گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2207021239377808&id=100002098614713
23-تفسیر قرآن کے موضوع پر گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2196516013761664&id=100002098614713
24-قرآن فہمی کے اصول وآداب پر گفتگو
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2165977080148891&id=100002098614713
25-فقہ اہل حدیث پے بہترین گفتگو۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2256185354632158&id=1489813531103922
26– مولانا مودودی کا نظریہ حدیث

27- الفھرست لابن ندیم پر گفتگو

YouTube player

28-مسند الامام احمد بن حنبل پر گفتگو

29-موطا امام مالک پر گفتگو
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/2350332588380005/
30-سیرت ابن اسحاق

YouTube player

31-امام شافعی کی الرسالہ پر گفتگو

YouTube player

32-قران پاک کی تلاوت اور اس پر عمل کرنے کی فضیلت۔

YouTube player

33-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے متعلق گفتگو بمقام۔جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں انڈیا

YouTube player

34-شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے متعلق معاصر کتابیں وتحقیقات اور مخالفین کے ان پر اعتراضات رد۔

YouTube player

35-مختلف مکاتب فکر کے علما و مفکرین سے ملاقات اور ان سے وابستہ دلچسپ یادیں قسط نمبر1
https://www.facebook.com/sanaullasadique.sagartaimi/videos/2853862754693650/
36- قسط نمبر 2
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2869501336463125&id=100002098614713
37-عالم اسلام کی بڑی علمی شخصیات سے ملاقات …
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/2918166148263310/
38– طالبان علوم نبوت کے لیے منطق اور فلسفہ کا علم‌ کس قدر ضروری ہے؟
قرآن کی جدید سائنسی تفسیر کے حوالے سے اسلام کا موقف کیا ہے؟

YouTube player

39-کن کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے۔
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3678934225519828/
40-اردو کی کن کتابوں کا مطالعہ ضروری ہے؟
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3695970470482870/
41-عربی کتابیں جن کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3713294988750418/
42-انگریزی کی جن کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے…
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3732234033523180/
43-انگریزی کی جن کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے قسط نمبر 2
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3751267088286541/
44-مولانا مودودی کی کتاب” خلافت وملوکیت”، صحابہ کرام کا مقام اور مودودی صاحب کی دوسری کتابوں پر گفتگو
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3789642881115628/
45-اخیر عمر میں تصوف کی طرف میلان : اسباب و عوامل
اردو ہندی تنازع احمد شاکر اور شعیب ارناؤوط صاحب کا منہج تحقیق نئے فقہی مسائل پر لکھی گئی کتابیں اقبال کیلانی صاحب کی کتابیں
انگریزی پر گرفت حاصل کرنے کا طریقہ وغیرہ پر گفتگو
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3789695977776985/
46-سوال وجواب شیخ محمد عزیر شمس کے ساتھ
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3810418495704733/
47-عقائد اور فلسفیانہ مباحث
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3826213684125214/
48-علم کلام اور عقیدہ کے مباحث…
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3844613995618516/
49-علامہ ابن تیمیہ اور علم کلام …
https://www.facebook.com/100002098614713/videos/3871184122961503/
50-برصغیر میں دعوت وتبیلغ

YouTube player

51- “کیا احادیث کے اندر کچھ ایسی چیزیں کہ جن میں قرآن مجید ساکت ہے اوربہ سے ایسے احکام ثابت ہوتے ہیں جو بظاہر قرآن مجید کو پڑہنے والے نہیں سمجھ سکتے؟”
کیا احادیث رسول صرف قرآن کی وضاحت کیلئے ہیں؟ از فضيلة الشيخ عزير شمس حفظه الله
https://www.facebook.com/100000596984129/posts/4929574367072414/

52-برصغیر کے اہل حدیث کی قرآنی خدمات.
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=4537837489610478&id=100001528158414

53-لائبریری : اہمیت و ضرورت، تاریخ ، اقسام اور استفادہ کے طریقے
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1002724733658343&id=100002098614713

54-شاہ ولی اللہ دہلوی۔۔۔۔۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=5254101707966962&id=100002098614713

(شیخ کے عربی دروس، اور آپ سے متعلق عربی زبان میں معلومات کے لیے یہاں کلک کریں اور انگلش بائیو گرافی کے لیے یہاں)