اختلاف کرتے ہوئے منہج سلف سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟
شیخ الحدیث استاذ الاساتذہ مولانا محمد رمضان سلفی حفظہ اللہ کا انٹرویو تو محدث میڈیا کے پلیٹ فارم سے منظر عام پر آیا. اس میں آپ موقف سے اختلاف رکھیں یا اتفاق… لیکن بہرصورت اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے کہ جو علم و ادب کے معیار سے گرا ہوا ہو۔
لیکن اس پر فضیلۃ الشیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب کا تبصرہ کس چینل کے ذریعے سوشل میڈیا پر عام ہوا؟
ان صاحب کا پتہ چلائیں جنہوں نے شیخ امن پوری صاحب کی ایک نجی اور مخصوص حلقہ کی غیر محتاط بات اور ادب و احترام سے گرے ہوئے تبصرے کو ویڈیو میں کنورٹ کرکے فیس بک پر چلایا ہے!
کچھ عرصے سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ سوشل میڈیائی تنازعات کی ایک بڑی وجہ اس قسم کی حرکتیں بھی ہیں کہ کسی عالم کی کلاس، نجی مجلس یا واٹس ایپ گروپ کی وائس یا سکرین شارٹ لے کر اسے نشر کر دیا جاتا ہے اور پھر اس پر ایک نیا محاذ کھل جاتا ہے۔
آپس کے عملی اختلافات چلتے رہیں گے، حل ہوتے رہیں گے، لیکن سوشل میڈیا کے ان صارفین کا پتہ لگانا ضروری ہے، جو ہر وقت اس قسم کی چیزوں کی تاک میں رہتے ہیں کہ کب کوئی وائس یا سکرین شارٹ آئے، اور اسے فورا وائرل کرنے کی سعی کی جائے۔
بہرصورت اس شر سے ہمیں یہ خیر برآمد ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے کہ شیخ الحدیث مولانا رمضان سلفی حفظہ اللہ ایک گوشہ نشیں عالم دین تھے، بہت کم لوگ انہیں سوشل میڈیا پر جانتے تھے، لیکن اب الحمد للہ حقیقی دنیا کی طرح سوشل میڈیا کے اس افتراضی ماحول میں بھی ہر طرف شیخ حفظہ اللہ اور آپ کی شرحِ بخاری منحۃ الباری کا تذکرہ خیر چل رہا ہے۔
اور اس میں بعض باتیں تو تاریخی طور پر بھی بہت اہمیت کی حامل ہیں، جیسا کہ بعض مشایخ کے بارے میں یہ واقعہ بیان کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے منحۃ الباری سے کتاب التوحید کو اپنی شرح بخاری میں شامل کرنے کی تمنا کا اظہار فرمایا۔
کچھ عرصہ پہلے ہم نے العلماء ویب سائٹ پر شیخ حفظہ اللہ کا بقلم خود لکھا ہوا تحریری انٹرویو نشر کیا تھا، گوگل کی طرف سے اس پر مسلسل کیوریز آ رہی ہیں۔
مولانا غلام مصطفی ظہیر امن پوری صاحب حفظہ اللہ علم وفضل کی دنیا کا ایک نمایاں نام ہیں، لیکن ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ شیخ حفظہ اللہ بعض دفعہ جذبات سے انتہائی زیادہ مغلوب ہو کر ایسی گفتگو کرتے ہیں جو کسی عالمِ دین کے شایانِ شان نہیں ہوتی۔
امام جرح و تعدیل یحیی بن معین رحمہ اللہ نے امام الائمہ محمد بن ادريس الشافعی رحمہ اللہ پر تنقید کی، جس پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«قد آذَى ابْن معِين نَفسه بذلك وَلم يلْتَفت النَّاس الى كَلَامه فِي الشَّافِعِي». [الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم ص29]
’ابن معین نے شافعی پر تنقید کرکے خود کو اذیت میں مبتلا کیا ہے، لوگوں نے اس جرح کو ذرا قابلِ التفات خیال نہیں کیا‘۔
شیخ امن پوری نے شیخ رمضان صاحب کو ’سٹھیایا ہوا’ کہہ کر علم و فن کی کون سی خدمت سر انجام دے لی ہے؟ خود ہی بے نقاب ہوئے ہیں کہ اتنے بڑے عالم دین کی عظمت و جلالت سے بے خبر ہیں!
ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ بن گیا ہے کہ ہم تجاہل عارفانہ سے کام لے کر سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے کسی کو گرانے کی کامیاب کوشش کر لی ہے، حالانکہ بعض شخصیات اور کام ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے لاعلم رہنا ہمارے لیے خامی بن جاتا ہے، جس پر کم از کم یہی کہا جا سکتا ہے: فإن المتكلم نادى على نفسه بعدم الاطلاع!
بعض گروپس میں دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک نوجوان ہیں، جو شیخ امن پوری پر بڑی تند و تیز تنقید کرتے اور ان کی اصول حدیث اور جرح وتعدیل سے متعلق غلطیاں نکال نکال کر مقالات لکھ رہے ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ شیخ امن پوری صاحب کی زندگی میں ہی اللہ تعالی نے نئی نسل کو ان کی کردار کشی پر لگا دیا ہے، اور اس کی وجہ شاید وہی غیر محتاط رویہ ہو، جو ان کی طرف سے بعض دفعہ دیگر اہل علم کے بارے میں روا رکھا جاتا ہے۔
اہل علم جانتے ہیں کہ اسلامی تاریخ میں کبار ائمہ اور اہل علم میں سے جس عالم دین نے سب سے زیادہ سخت زبان استعمال کی اور کشتوں کے پشتے لگائے، وہ ابن حزم ہیں اور سب سے زیادہ جس پر سخت تنقید کی گئی، اور ان کی قدر و منزلت کو گھٹانے کی کوشش کی گئی شاید وہ بھی ابن حزم ہی ہیں۔
اسی وجہ سے حافظ ذہبی نے لکھا ہے:
«وَبسط لِسَانَه وَقلمَه، وَلَمْ يَتَأَدَّب مَعَ الأَئِمَّة فِي الخطاب، بَلْ فَجَّج العبَارَة، وَسبَّ وَجَدَّع ، فَكَانَ جزَاؤُه مِنْ جِنس فِعله، بِحَيْثُ إِنَّهُ أَعْرَضَ عَنْ تَصَانِيْفه جَمَاعَةٌ مِنَ الأَئِمَّةِ، وَهَجَرُوهَا، وَنفرُوا مِنْهَا، وَأُحرقت فِي وَقت…». [السیر 18/ 186]
’ابن حزم نے قلم و زبان دونوں کو یوں بے لگام چھوڑا کہ اہل علم اور ائمہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے آداب کا خیال رکھنے کی بجائے، سب و شتم اور سخت ترین اسلوب و تعبیرات ان کے گفتگو میں در آئیں!، چنانچہ الجزاء من جنس العمل کے مصداق ان کے ساتھ بھی یہی رویہ رکھا گیا، کہ وقت کے علماء و ائمہ نے ان کی تصانیف سے اعراض کیا، لوگوں کو اس سے متنفر کیا یہاں تک کہ ان کی کئی ایک تصانیف جلائی بھی گئیں’۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی تصانیف میں مختلف جگہوں پر یہ بات بڑی واضح کرکے لکھی ہے کہ کس طرح حافظ ابن حزم کی زبان کی سختی کے سبب ان کے زمانے کے اور ان سے جونیئر لوگ ان کی عزت کے درپے ہو گئے تھے!
اگر زبان کی سختی اور غیر محتاط رویے کے اثرات سے حافظ ابن حزم جسا عبقری نہیں بچ سکتا تو ہمیں اس سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے، آج کوئی جس قدر بھی علم وفضل اور مقام و مرتبے پر فائز ہو جائے، اسے ’حصائد لسان’ اور ’مصائد شیطان’ سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔
شیخ غلام مصطفی ظہیر کی قدر و منزلت بہت بلند ہے کہ ہمارے جیسے طفل مکتب ان کے بارے میں کچھ کہیں، لیکن سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں نے عجیب ماحول بنا دیا ہے، صغار کو کبار پر حاکم بنا کر پیش کیا جا رہا ہے…. شیخ رمضان سلفی حفظہ اللہ کے بارے میں غلام مصطفی ظہیر صاحب کی بات پیش کرنے کا کیا مطلب ہے؟ شیخ الحدیث سلفی صاحب کے بعض شاگرد امن پوری صاحب سے سینئر اور قدر و منزلت میں فائق ہیں!
بس فرق اتنا ہے کہ انہیں سوشل میڈیا کے جھمگٹے اور ٹولے نصیب نہیں ہوئے!!
“أتدرون فيمن تتكلمون؟… كأنكم لا تدرون أنه أرفع منكم بطبقات…”.
آخر میں، میں اپنی بات کو اسی پہلے نکتے پر ختم کرتا ہوں کہ اس بات کا پتہ چلایا جائے کہ نجی مجالس کی باتیں سوشل میڈیا پر کون نشر کرتا ہے!
اور سلف کا اس بارے میں کیا منہج ہے؟ یہ جتنے لوگ سلف کے منہج کے پاسبان بن کر سامنے آ رہے ہیں، ان کی اپنی قابلیت کیا ہے؟ اور ان کی اس قسم کی حرکتیں کیا سلفی منہج کے مطابق ہیں؟ منحرفین کو پڑھنے نہ پڑھنے کے بارے میں سلف کا موقف بیان ہو گیا، لیکن منہج کے نام پر آئے دن اختلافات اور لڑائیاں جھگڑے، خود اس کے بارے میں بھی منہجِ سلف سے کیا رہنمائی ملتی ہے؟
#خیال_خاطر