علماء کی خدمت، اور عزت وتکریم کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ ان کے تذکرہ ء خیر کو عام کیا جائے، اس لیے ہم نے ’تعارفِ علماء‘ کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس میں ابتدا ان معزز علمائے کرام سے کی ہے، جو ہماری سرپرستی فرما رہے ہیں، یا کسی صورت میں ہمیں ان کے ساتھ شرفِ انسلاک حاصل ہے۔ اسی مبارک سلسلے کی ایک اہم کڑی شیخ محترم کا یہ دلچسپ انٹرویو ہے۔ آپ ’العلماء‘ کے بنیادی رکن، اور لجنة العلماء للإفتاء کے مفتیانِ کرام میں شامل ہیں۔ (ادارہ)
سوال: شیخ محترم اپنے اسم گرامی اور تاریخ و مقامِ ولادت کے متعلق آگاہ کیجیے!
جواب: والدین رحمہما اللہ نے میرا نام ’محمد منیر‘ رکھا تھا اور زمانہء طالبِ علمی میں ہی میں نے ’قمر‘ کا اضافہ کر لیا۔ والدِ محترم کا اسمِ گرامی حاجی نواب الدین رحمہ اللہ تھا۔
میری ولادت کی صحیح تاریخ کا تو علم نہیں، لیکن میرے کاغذات میں یکم جنوری 1954ء لکھی ہے۔ تاہم ایک مضبوط اندازے کے مطابق 1950ء زیادہ صحیح ہے۔ ان اندازوں کی وجہ در اصل یہ ہے کہ ہماری ولادت کے زمانے میں کمپیوٹر تو کیا، رجسٹر کروانے کی بھی پابندی نہیں کی جاتی تھی۔
میرا مقامِ ولادت گاؤں ریحان چیمہ سابقہ تحصیل ڈسکہ موجودہ تحصیل : سمبڑیال ضلع :سیالکوٹ ہے جبکہ موجودہ رہائش ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں ہے اور حالیاً میں الخبر، سعودی عرب میں مقیم ہوں۔
سوال : شیخ محترم !آپ اپنی فیملی کے بارےميں بتائیں کہ کیا آپ سے پہلے بھی کوئی اس شعبہ میں تھا یا آپ ہی اس طرف آئے؟
جواب : پہلے تو میری فیملی میں سے اس لائن پر کوئی نہیں تھا، بس مجھے ہی اللہ نے یہ توفیق دی ، میں چوتھی کلاس میں تھا، ہماری کلاس کاایک لڑکا سکول چھوڑکر حفظ کرنے کے لیے چلا گیا۔ یہ میرا نقطہء آغاز تھا کہ میں نے کس طرف جانا ہے؟ اس کے ساتھ ہی میں نے دل میں ٹھان لی کہ میں نے دین کی طرف جانا ہے۔ پرائمری مکمل کرنے پر میں نےاپنے گھر والوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں حفظ کرنا چاہتا ہوں ۔
میرے بڑے بھائی حاجی محمد نذیر صاحب حفظہ اللہ نے میرے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آپ کا ابھی لکھنے پڑھنے کی سُوجھ بُوجھ کا مسئلہ ہے ،ابھی آپ مزید دو تین سال سکول پڑھ لو۔ لیکن میں ارادہ کر چکا تھا لہذا گھر والو ں نے یہ طے کیا کہ آپ مڈل پاس کرنے کے بعد چلے جانا۔ میں نے اسی وقت جامعہ سلفیہ فیصل آباد کے اس وقت کے مدیر مولانا پیر محمد یعقوب صاحب رحمہ اللہ کو خط لکھا کہ میں پڑھنا چاہتا ہوں ،لیکن میرے احباب کی خواہش ہے کہ مڈل مکمل کر کے آؤں تو انہوں نے کہا کہ آپ ان کی خواہش بھی پوری کریں ،اور اپنا ارادہ بھی پختہ رکھیں۔
لہذا میں نے مڈل پاس کیا ، جب مڈل کلاس کا رزلٹ آیا تو ساتھ ہی اسکالر شپ آگیا ۔ اب سکول والوں کی خواہش تھی کہ یہ ہمارے سکول میں تعلیم حاصل کرے ، پرنسپل صاحب نے کہا کہ سکول نہ چھوڑو، لیکن میں نے عرض کیا کہ میں دینی تعلیم وحفظ کرنے کے لیے جا رہا ہوں ، تو انہوں نے کہا کہ اگر یہ بات ہے ،تو پھر آپ جا سکتے ہیں ، لہذا میں اللہ کی توفیق سے جامعہ سلفیہ چلا گیا۔
سوال : دینی تعلیم کا آغا ز کیسا رہا؟
جواب : جب میں جامعہ میں گیا تو میرے والد گرامی رحمہ اللہ ساتھ تھے ، ہماری پہلی ملاقات جامعہ کے سفیر مولوی یعقوب صاحب رحمہ اللہ سے ہوئی، میں نے ان کو بتایا کہ میں پڑھنے کے لیے آیا ہوں اور میرا ارادہ تو حفظ کا ہے، لیکن انہوں نے کہا کہ آپ کی عمر کافی بڑی ہو گئی ہے ،لہذا اب آپ حفظ کی بجائے درسِ نظامی شروع کر لیں، بعد میں اگر اللہ توفیق دے تو حفظ بھی کر لینا۔ اس طر ح میں نے درسِ نظامی کا آغاز کر دیا ،اور میری فراغت جامعہ سلفیہ سے ہی ہوئی اور وفاق المدارس والجامعات السلفیہ کی سند بھی بعد میں حاصل کی۔ ولله الحمد والمنة.
سوال: شادی کب ہوئی اور کتنے بچے ہیں؟
جواب: میری شادی 4 جولائی 1976ء میں ہوئی اور ہماری اولاد میں چار بیٹے اور پانچ بیٹیاں ہیں۔ ولله الحمد، وفقنا الله وإياهم لكل خير.
سوال : جامعہ سے فراغت کے بعد آپ نےکیا کیا ؟
جواب : جامعہ سے فراغت کے بعد میری والدہ محترمہ رحمہا اللہ کہنے لگیں کہ اتنی دیر آپ جامعہ میں رہے ہیں، اب آپ ہمارے پاس بھی کچھ عرصہ رہیں ،تو میں گھر رہنے لگا اور جامعہ کی تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نےپنجاب یونیورسٹی سے بی اے بھی کر لیا تھا، اس وقت جنرل ضیا ء الحق آئے ہوئے تھے، تو اس سال پنجاب یونیورسٹی آڈیٹوریم میں 99 واں کانووکیشن جنرل صاحب کی صدارت میں ہی ہوا،اس میں مَیں نے بی اے میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے پر گولڈمیڈل لیا۔
چند ماہ اعلیٰ سائزنگ آف چوہدری عبد السلام رحمہ اللہ (فیصل آباد) میں بطور ِمراقب ملازمین (فورمین) کام کیا اور پھر متحدہ عرب امارات چلا گیا، جہاں میں سترہ سال رہا ہوں۔ اسی دوران ہم نے احباب کے ساتھ مل کر مرکزی جماعت اہل حدیث کا آغاز کیا ، جس کے تحت ہر شہر میں فری لائبریریاں اور مدارسِ تحفیظ القرآن قائم ہوئے اور ہر سال مختلف شہروں میں سالانہ عالمی کانفرنس ہوا کرتی تھی۔
سوال: بیرون ملک کب تشریف لائے اور کیا مصروفیات رہیں؟
جواب: جامعہ سلفیہ فیصل آباد سے فراغت کے تھوڑا عرصہ بعد متحدہ عرب امارات (UAE) چلا گیا اور 17 سال وہاں رہا۔ وہاں کے آخری 15 سال سعودی وزارتِ عدل کے تابع شرعی کورٹ ام القیوین میں مترجم رہا اور پھر وہاں سے سعودی عرب شرعی کورٹ، الخبر میں آگیا اور 25 سال ا س میں کام کیا اور چالیس سالہ سروس کے بعد ایک سال اور چند ماہ قبل اسی سے ریٹائر ہوا۔ اس دوران مراکزِ دعوت و ارشاد، ریڈیو، ٹی وی، جرائد و مجلات اور دیگر ذرائع سے دینِ اسلام کے ساتھ ساتھ اپنوں بیگانوں کی خدمت کا بھی کام کیا۔ تقبل الله منا خالصة لوجهه الكريم.
سوال : آج کل جو والدین اپنے بچوں کو دینی جامعات میں داخل نہیں کرواتے اور کہتے ہیں کہ ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے ، آپ اس کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟
جواب : اس کی وجہ ہمارے یہاں پاک وہند کا سابقہ ماحول ہے، اب تو الحمداللہ کافی تبدیلیاں آ گئی ہیں ، ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک یہ تھا کہ مولانا صرف مولانا ہی ہوتے تھے ، لیکن اس سے بہت پہلے ہر عالم عالم بھی ہوتا تھا اور طبیب بھی، اس طرح انہیں کسی مسجد کے متولِّی کا خادم بن کے نہیں رہنا پڑتا تھا ،اپنی کمائی خود کرتے اور دین کی خدمت بھی کرتے تھے۔
پھر ایک دور ایساآ گیا کہ اس طرح نہیں ہوا ، بلکہ مولانا ہیں تو بس مولانا ہیں، مساجد و مدارس کی انتظامیہ کے رحم و کرم پر ہوتے تھے، لوگوں نے دیکھا کہ مولانا کی اتنی عزت نہیں ہےتو اس وجہ سے جو بچے لائق فائق ہوتے انہیں کالجوں سکولوں کی طرف اور جو کسی نا کسی کمی یا خامی کا شکار ہوتے تو انہیں مدارسِ دینیہ میں بھیج دیا جاتا تھا۔
لیکن اب حالات بہت بدل چکے ہیں ، اب مدارسِ دینیہ میں بچہ دین اور دنیا دونوں چیزیں سیکھ لیتا ہے، جبکہ سکولوں اور کالجوں میں دین نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہر سال میں صرف ایک ہی کتاب دین کی ہو اور سولہ سال تک یہ سلسلہ چلتا رہے اور طالب علم ہر سال ایک ایک کتاب دین کی پڑھتا رہے ، تب بھی وہ اتنا نہیں پڑھ پاتا ، جتنا ایک مدرسہ کا طالب علم ایک سال میں پڑھ لیتا ہے۔ اب تو ایسے مدارس بھی الحمد اللہ ہیں، جن میں دین اور دنیا دونوں موجود ہیں ، آج دین کےساتھ ساتھ دنیا بھی سکھائی جاتی ہے، تا کہ یہ کسی متولِّی و مہتمم کے خادم و مرہونِ منت بن کر نہ رہیں، بلکہ اپنی روزی خود کما ئیں، دین کی خدمت کریں اور صحیح معنوں میں خدمتِ دین کا لطف بھی اسی طرح ہی آتا ہے۔
لہذا آج کل کے والدین کو یہ نہیں سوچنا چاہیے ، کہ پہلے حالات کی طرح بچہ صرف مولوی بنے گا یا صرف حافظ ہی بنے گا ، بلکہ اب الحمد اللہ ہمارے دینی مدارس و جامعا ت سے پڑھ کر نکلنے والا طالب علم ایک ہی وقت میں عالمِ دین بھی ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ بی اے ، ایم اے کا ڈگری ہولڈر ٹیچر اور پروفیسر بھی ہوتا ہے۔
سوال : شیخ صاحب آپ کی زندگی میں کوئی ایسا استاذ ہے جس کے لیے آپ کے دل سے دعائیں نکلتی ہوں؟
جواب : ویسے تو سب استاد ہی ایسے ہیں، سبھی کا احترام دل میں ہونا چاہیےاور مختلف وجوہ کی بنا پر میرے متعدد ایسے اساتذہ کرام ہیں جومیرے ذہن میں موجود ہیں، ان کے لیے دعائیں نکلتی رہتی ہیں۔ سب الگ الگ طرز اور حیثیت سے لوحِ دل پر نقش ہیں، جیسے ہمارے شیخ الحدیث صاحب تھے ، حضرت مولانا محمد صدیق صاحب رحمہ اللہ آف فیصل آباد ، ہم نے بخاری شریف ان سے پڑھی تھی اور وہ فاتحِ شیعہ مناظر بھی تھے،وہ میرے ساتھ بہت پیار اور محبت کرتے تھے۔ مولانا صدیق صاحب رحمہ اللہ شادی کرنے کے بعد گھر والوں سے اجازت لے کر طلبِ علم لیے نکلے اور پاکستان کی سب سے بڑی درس گاہ ( جامعہ سلفیہ فیصل آباد) کےصدر مدرس اور شیخ الحدیث ہوئے ، اور تاحیات مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نائب امیر بھی رہے۔
دوسرے استاد مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب رحمہ اللہ تھے، مدینہ یونیورسٹی کے اوائل فارغ التحصیل اور جماعت کے مفتیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ، ان کافتاوی ٰثنائیہ مدنیہ معروف ہے -اب تک اس کا کچھ حصہ چار جلدوں میں شائع بھی ہو چکا ہے – اور ان کی جائزۃ الاحوذی شرح ترمذی ، اسی طرح الوصائل فی شرح الشمائل بھی مطبوع ہے، یہ دونوں کتابیں عربی زبان میں ہیں۔
جامعہ اسلامیہ سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں تدریس کے سلسلے میں تشریف لائے ، ان کا خصوصی وصف یہ تھا کہ نہایت کم گو اور بارعب شخصیت تھے، حالانکہ میں نے انہیں کبھی نہیں دیکھا کہ انہوں نے کسی کو مارا ہو،لیکن جتنا رعب اللہ نے ان کی شخصیت میں رکھا تھا ،اس وقت کسی استاد میں نہیں تھا۔[1]
ایسے ہی ہمارے ایک استاد مولانا ابو ذوق قدرت اللہ فوق رحمہ اللہ تھے، انتہائی پارسا و پاکباز حتیٰ کہ ایک مدرسۃ البنات میں بھی مدرّس تھے۔
ایسے ہی ہمارے ایک استاد تھے جو تجوید القرآن اور چھوٹی کتب پڑھاتے تھے ،مولانا محمد اکال گڑھی صاحب رحمۃاللہ علیہ، انتہائی پارسا انسان تھے ،ان کی نیکی اور تقویٰ کا اندازہ اس سے لگاسکتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں طلبہ کے مختلف گروپ ہوا کرتے تھے ، ایک گروپ تو انہیں کہتا تھا ’مولانا محمد فرشتہ‘۔ اسی طرح بلتستان سے مولانا عبدالوہاب حجازی رَحِمَهُ الله اور گوجرنوالہ جامعہ اسلامیہ کے شیخ الحدیث مولانا فاروق احمد راشدی حفظہ اللہ بھی میرے استاد گرامی ہیں، اور میری معلومات کی حد تک میرے اساتذہ میں سے یہ واحد ہستی ہیں، جو بقیدِ حیات ہیں، اللہ ان کو صحت و عافیت عطا فرمائے۔ بعض عرب اساتذہ کرام سے بھی کسبِ فیض کا موقع ملا، دعا ہے اللہ تعالیٰ سب کو جزا ئےخیر عطافرمائے آمین۔
سوال :شیخ صاحب دورانِ طالبعلمی اپنا کوئی حیرت انگیز واقعہ بتائیں؟
جواب: ایسے واقعات تو بہت سارے ہوتے ہیں لیکن ایک واقعہ جو ابھی میرے ذہن میں آیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ دین سے اتنے دور ہوتے ہیں، کہ ان کو حلال و حرام کی تمیز تک نہیں ہوتی۔ جامعہ سلفیہ میں تعلیم کے دوران ہمارا طالب علموں کاایک وفد ایک دن شوگر مل دیکھنے چلا گیا، تو وہاں ہم ایک ایسی شوگر مل میں گئے جہاں شراب بن رہی تھی، ایک ورکر چُلّو بھر کر پیتے ہوئے ہمیں کہتا کہ اس میں کچھ نہیں ہے!! مطلب یہ کہ ایک مسلمان چاہے جتنا بھی دین سے دور کیوں نہ ہو اسے یہ پتہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہے، لیکن وہ دین سے اتنا دور تھا کہ شراب کا چُلّو بھر کر ہمارے سامنے پی کر کہتا ہے کہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے !! اس طرح کے بہت سارے ناقابلِ فراموش و حیرتناک واقعات ہیں۔
سوال : شیخ صاحب چونکہ آپ سعودیہ میں ہوتے ہیں تو اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں کہ جن طالب علموں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کریں لیکن کسی وجہ سے وہ وہاں نہیں پڑھ پاتے تو پھر ان کے لیے کونسی جگہ مناسب رہے گی جہاں سے ان کو مدینہ یونیورسٹی کی طرز پر تعلیم مل سکے؟
جواب : جس طرح مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ اور مکہ مکرمہ میں جامعہ ام القری ہے ،اسی طرح ریاض میں جامعۃ الامام محمد بن سعود الاسلامیہ ہے، جو ’ جامعۃ الامام‘ کے نام سے مشہور ہے، جو اسی طرزپر بلکہ اس سے بھی بڑے لیول کی جامعہ ہےاور وہاں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ ہی بہت سارے دنیا کے کورسز بھی آ گئے ہیں۔ اسی طرح سعودیہ کے علاقے قصیم، جہاں کے شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ تھے ، اس میں ’جامعۃالقصیم‘ کے نام سے ایک بہت بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔
منطقہ شرقیہ میں ’ الدمام‘، ’الخبر‘ سے آگےمتحدہ عرب امارات کی طرف جائیں تو ’ الھفوف‘ شہر آتا ہے ،وہاں ایک جامعہ ہے ۔ یہ بہت ساری جامعات ہیں، اسی طرح ریاض میں جامعہ امیرہ نورہ ہے۔ ان جامعات کی تقریبا ہر سال اخبارات میں، واٹس ایپ گروپوں میں خبریں ملتی رہتی ہیں کہ داخلے کھل گئے ہیں ، ان میں بھی کوشش کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح علامہ ابن باز رحمہ اللہ نے بطورِ خاص ایک ادارہ بنوایا تھا ، جو آج بھی الحمد اللہ چل رہا ہے، وہ مکہ میں ہےلیکن جامعہ ام القری کے علاوہ ہے ، یعنی دار الحدیث ، مکہ مکرمہ، اس کی خوبی یہ ہے کہ آٹھ سالوں میں اتنی کتب اور نصاب اتنا سخت ہے کہ طالب علموں کو واقعتا پتہ لگ جاتا ہے کہ میں پڑھ رہا ہوں، باقی جامعات کے کورسز اس کے حساب سے بہت ہلکے ہیں۔ اس میں کتب کی بھرمار ہے ، جامعہ اسلامیہ مدینہ کی آٹھ سال والی کتب کو وہ چار سال میں پڑھاتے ہیں اور اساتذہ بھی بہت اعلیٰ پائے کے ہیں۔ تعلیمی معیار کو دیکھا جائے تو اس کا علمی معیار سب جامعات ومدارس سے اونچا ہے ،حتیٰ کہ ابھی چند سال پہلے یہ بات چلی کہ جامعہ اسلامیہ اور جامعہ ام القریٰ وغیر ہ اور دار الحدیث کی اسناد مساوی اور برابر ہو جائیں ، تو بات یہ سامنے آئی کہ ان کی اسناد تب مساوی ہوں گی جب دار الحدیث اپنا نصاب تھوڑا کم کرے!!
ایسے ہی مدینہ منورہ میں بھی دار الحدیث ہے۔اس طرح سعودیہ میں بہت سے مدارس ایسے ہیں جو تعلیمی کام سر انجام دے رہے ہیں ، بلکہ اب تو بالخصوص مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی میں بھی باقاعدہ پروفیشنل تعلیمی سیٹ اپ شروع ہوچکے ہیں۔
سوال: ہمارے دین میں کتابت اور تحریر کی کیا اہمیت ہےاور آپ کی دلچسپی پہلے ہی تھی یا بعد میں آپ کے دل میں آیا ہے؟
جواب:جہاں تک بات ہے کتابت کی توکتاب پڑھنے سے پہلےلکھنے والے کا ہی ذکر آئے گا ۔ اس حوالے سے ایک حدیث جو موقوفاً بھی ثا بت ہے اور مرفوعا ًبھی، نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
(قیدوا العلم بالکتاب).
’علم کو لکھنے کے ساتھ محفوظ کرو‘۔
یہ حدیث مصنف ابن ابی شیبہ ،مستدرک حاکم ، تاریخ خطیب بغدادی وغیرہ میں متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، امام البانی نے اپنی کتاب سلسلہء احادیثِ صحیحہ میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث مرفوعا اور موقوفا دونو ں طرح سے صحیح لغیرہ ہے۔
لکھنےکے حوالے سے ایک مشہور واقعہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ایک صحابی حضرت عبد اللہ بن عَمرو رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے، تو لوگوں نے کہا کہ نہ لکھا کرو کیونکہ آپ ﷺ کبھی غصے میں ہوتے ہیں ، اس صحابی نے یہ بات آپ ﷺ کو بتائی تو آپ ﷺ نے فر مایا:
(اكتب فوالذي نفسي بيده ما خرج منه إلا حق). [ابو داود، مستدرك حاكم، مسند احمد]
’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم لکھا کرو میرے منہ سے جو بھی نکلتا ہے ،حق ہی نکلتا ہے‘۔
یہ علم کو محفوظ کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ انسان کو بھولنے والا کہا گیا ہے ، لیکن اگر لکھ لیا جا ئے تو وہ ہمارے پاس ریکا رڈ ہو جاتا ہے۔
جہاں تک میرے لکھنے کی بات ہے، تو میں الحمد اللہ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں دوسری کلا س میں تھا جب میں نے لکھنا شروع کر دیا تھا، میں نے جو پہلا مضمون لکھا تھا، وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے آرگن ہفت روزہ اہلحدیث جو لاہو ر سے نکلتا تھا (اب بھی جاری ہے)، اس میں چار قسطوں میں شائع کیا گیا تھا اور مولانا محمود احمدمیر پوری جو اس وقت اہلحدیث کے ایڈ یٹوریل بورڈ کے ممبر تھے ، وہ اس وقت جامعہ سلفیہ میں آئے تو میں نے وہ مضمون ان کو دیا ، انہوں نے میرا مضمون بہت بہتر انداز میں شائع کیا، جس سے میری ہمت اور بڑھ گئی، پھر اس کے بعد رسالے، مضامین اور کتب لکھتا آرہا ہوں۔
ابھی جامعہ سلفیہ میں ہی تھا، تو میری الحمد اللہ دو کتب جن میں سے ایک ’رمضان المبارک روحانی تربیت کا مہینہ‘ اور دوسری کتاب ماہنامہ الہلال کا سیرت نمبر بنام ’آئینہ نبوت ‘ شائع ہوئی۔ آئینہ نبوت کی سرگزشت کچھ ایسے ہے کہ ہم طلبہء جامعہ سلفیہ ایک ماہنامہ ’الہلال‘ شائع کیا کرتے تھے، جس میں طلبہ و اساتذہ کے مضامین ہوتے تھے اور میں اس کا مدیرِ اعلی تھا۔ ربیع الاول کی آمد پر اساتذہ و طلبہ سے مضامینِ سیرت لکھوا کر اس پرچے کو ’آئینہ نبوت‘ کا نام دیا اور اس کی ایک ہزار کاپیاں چھپوائی تھیں!
اس کے بعد الحمد اللہ یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج بھی چل رہا ہے اللہ تعالیٰ مزید تو فیق دے اور قبو ل بھی فرمائے۔
سوال: آپ کی تصانیف کی تعداد کتنی ہے؟ اور کن کن زبانوں میں آپ نے کام کیا؟
جواب: اردو تصانیف و تراجم اور تہذیب و مراجعہ کی تعداد 100 سے متجاوز ہے ، جن کی فہرست میری بعض مطبوعہ کتابوں کے آخر میں موجود ہے، اسی طرح ویب سائٹ[2] پر بھی موجود ہے۔چند ایک کے نام یہاں ذکر کر دیے جاتے ہیں:
1:فقہ الصلاۃ 3ضخیم جلدیں 2:خطبات حرمین 3 ضخیم جلدیں
3:زادالمبلغات مجلد(صفحات:704) 4: سیرت امام الا نبیاءﷺ (صفحات: 540)
5:سیرت خلفائے راشدین (صفحات: 704) 6:حقوق مصطفیٰ اور توہین رسالت کی سزا (صفحات:352)
7:عظمت قرآن مجلد(صفحات:192) 8:قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات (صفحات:456)
9:ظہور امام مہدی۔ ایک اٹل حقیقت (صفحات:224) 10: نماز نبوی (صفحات:456)
11:سوئے حرم (صفحات:416) 12:تربیت اولاد (صفحات:224)
13:فکر آخرت (صفحات:300) 14:درود شریف (صفحات:212)
15:سورۃ الفاتحہ۔ فضیلت اور مقتدی کیلئے حکم (صفحات: 248) 16:اوقات نماز (صفحات:214)
17:عیدین و قربانی (صفحات:226) 18:جادو کا آسان علاج (صفحات:80)
19: سفینئہ نجات (صفحات:96) 20:سب سے بڑا دشمن کون ؟(صفحات: 108)
21:شہادت حسین (صفحات:112) 22:اہل سنت اور محرم الحرام (صفحات:112)
جہاں تک تعلق ہے دوسری زبانوں کا، تو ایک کتاب میں نے عربی میں اذکار و دعاؤں کے موضوع پر لکھی مگر اس کی اشاعت کی نوبت نہیں آئی۔ ایک رسالے کا میں نے عربی سے اردو میں ترجمہ کیا جو کہ خنزیر کی چربی پر مشتمل اشیاء کے بارے میں تھا، اسے عربی میں محکمہ اوقاف شارجہ نے اور اردو میں خود ہم نے متحدہ عرب امارات میں قیام کے دوران شائع کیا اور پھر ابیرڈین یونیورسٹی (برطانیہ) کے مسلم سٹوڈنٹس کی تنظیم نے اردو انگلش دونوں زبانوں میں اکٹھے ہی شائع کیا۔
اسی طرح ہماری ایک کتاب عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے، جس کا انگلش ترجمہ برطانیہ (لندن) میں مقیم جناب ڈاکٹر عمران معصوم انصاری ابو خزیمہ نے کیا تھا، جو وہ قسط وار مجھے بھیجتے بھی رہے، لیکن وہ ہمارے پاس محفوظ نہیں رہ سکا۔ آمین کے موضوع پر ہماری ایک کتاب کا ترجمہ پشتو میں شائع ہوا ہے۔ ہندی اور بنگالی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے بعض احباب نے اجازت لی ہے، لیکن کسی نے کیا یا نہیں، ہمارے علم میں نہیں ہے۔ ’احکام القرآن‘ نامی کتاب کا انگلش ترجمہ تیار ہو چکا ہے اور وہ طباعت کے لیے تیار ہے۔
سوال : آپ کی تصانیف و تالیفات کہاں سے مل سکتی ہیں؟
جواب :جو کتب میں نے لکھی ہیں وہ پاکستان سے تو چھپ ہی رہی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کچھ سعودی عرب میں اور کچھ انڈیا میں بھی چھپ رہی ہیں ، ایک کتاب انگلینڈ سے چھپی ہے۔ پاکستان میں مطبوع کتابیں فیصل آباد، لاہو ر ،گوجرانوالہ اور کراچی وغیرہ میں بڑے بڑے مکتبات ہیں، وہاں سے مل جائیں گی، اکثر کتب انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ ولله الحمد ومنه القبول.
سوال: آج کل کتب سے دوری کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ اور لوگوں میں مطالعہ کا شعور کیسےپیدا کیا جا سکتا ہے؟ کتب سے دور ہوکر انٹرنیٹ سے مطالعہ کرنا کیسا ہے؟
جواب : موبائل، کمپیوٹر وغیرہ جدید سہولیات آنے کی وجہ سے بہت آسانی ہوگئی ہے، پی ڈی ایف میں کتابیں جمع کرنا بھی آسان ہے، اور انہیں سفر وغیرہ میں ساتھ رکھنا بھی مشکل نہیں، ورق والی کتابیں انسان ایک حد تک ہی خرید سکتا ہے، لیکن پی ڈی ایف وغیرہ میں جو کتابیں آپ کی قوتِ خرید میں نہیں بھی آتیں، آپ وہ بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ جن ہزاروں، لاکھوں کتابوں کو لائبریری میں رکھنے کے لیے اچھی خاصی جگہ اور اس میں لائبریری کا سامان ہونا چاہیے، وہ سب کتابیں آپ ایک موبائل یا کمپیوٹر میں رکھ سکتے ہیں، تو یہ سب ان جدید سہولیات کے فوائد ہیں۔
البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ سب معاون چیزیں ہیں، جن سے بوقت ضرورت گزارہ کیا جاسکتا ہے، لیکن باقاعدہ علم حاصل کرنے کےلیے، یکسوئی سے کتاب کی قراءت و تفہیم اور پڑھنے پڑھانے کے لیے اصل کتاب کا ہونا ضروری ہے، ٹیکنالوجی جتنی مرضی ترقی کرلے، ہارڈ کاپی کی ضرورت و حاجت اور اہمیت اپنی جگہ برقرار رہے گی، علم کے قدر دان کبھی بھی اس سے مستغنی نہیں ہوسکتے!! كمپیوٹر کب خراب ہو جائے، بیٹری کب ختم ہو جائے، موبائل کب خراب ہو جائے اور یو ایس بی یا ہارڈ ڈسک کب کرپٹ و ناکارہ ہو جائے، کوئی پتہ نہیں ہو تا لیکن کتاب میں اس قسم کے خدشات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
باقی بہت سارے لوگ مجموعی طور پر علم اور دین دونوں سے دور ہورہے ہیں، اسی وجہ سے مطالعہ کا بھی شوق نہیں رہا، اکثریت کا حال تو یہ ہے کہ ہارڈ کاپی پڑھتے ہیں نہ پی ڈی ایف!!
سوال :شیخ صاحب آپ کی روٹین کیا ہے اور آپ کن اداروں میں کام کر رہے ہیں؟
جواب :جہاں تک روٹین کی بات ہے تو میں چالیس سال سے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں وزارۃ العدل السعودی (منسٹری آف جسٹس) یعنی شرعی کورٹ میں بطور ٹرانسلیٹر (مترجم) خدمت سر انجام دیتا رہا ہوں۔ صبح سے لے کر دو بجے تک میری یہ سرکاری ذمہ داری رہی ہے، اس کے بعد درس و تدریس کا کام اور جمعرات کو ریڈیو پر درس ہوتا تھا، جبکہ تقریبا چودہ سال یہ سلسلہ جاری رہا اور متحدہ عرب امارات میں قیام کے دوران ریڈیو متحدہ عرب امارات، ام القیوین سے بھی چودہ سال روزانہ درس کا سلسلہ جاری رہا،اور کبھی کبھی شارجہ ٹی وی سے بھی پروگرام نشر ہوا کرتے تھے۔ ایک عرصہ سے پیغام ٹی وی سے بھی ہمارے دروس نشر ہو رہے ہیں۔ تقبل الله منا ومنهم صالح الأعمال.
سوال:آپ کی دلچسپی سب سے زیادہ کس کام میں ہے ؟ تصنیف و تالیف میں خطابت میں یا کہ تدریس میں ؟
جواب : اصل مِیں مَیں شروع سے لکھتا رہا اور آج بھی لکھ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ تدريس و خطابت کا کام بھی جاری ہے، لہذا میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں کتابت میں ہی دلچسپی رکھتا ہوں ،جس کام کی اللہ توفیق دیتا ہے وہ کر لیتا ہوں۔
سوال : مستقبل میں آپ کی کیا پلاننگ ہے؟
جواب : کوئی خاص پلاننگ نہیں ہے بس یہ ہے کہ جب تک اللہ توفیق دے گا تب تک لکھنے لکھانے اور درس و تدريس کا سلسلہ جاری رکھیں گے ۔ان شاء اللہ۔ باقی رہا روزی روٹی کا تو جیسا میں نے بتایا کہ میں سرکاری کام کرتا رہا ہوں اس سے کام چلتا رہا ہے اور اب بھی بچے کام کر رہے ہیں اور اللہ تعالی کی توفیق سے کام چل رہا ہے۔ الحمدللہ۔
سوال : آج کل کے نوجوانوں کو کیا نصیحت کریں گے؟
جواب : سب سے پہلے تو یہ کہ ہمارا دین سارا نصیحت ہی ہے۔ دوسری بات یہ کہ دین سیکھنے کے لیے ضرور وقت مختص کریں، میں نوجوانو ں کو کہوں گا کہ آپ 24 گھنٹوں میں سے روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ دین کے لیے ضرور نکا لیں، اس میں آپ کے پاس بہترین کتاب ہے ،قرآنِ کریم کا ترجمہ اور تفسیر احسن البیان از حافظ صلاح الدین یوسف صاحب اور اسی گھنٹے میں قرآن و تفسیر کے ساتھ آپ صحیح بخاری اورصحیح مسلم کا مطالعہ بھی کرتے رہیں ، ہر گھر میں یہ دونوں کتابیں ہونی چاہییں، کیونکہ ان میں ضعیف وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہے۔
اگر کسی کو مزید توفیق ملے اور شوق پیدا ہو تو وہ شرعی احکام سے متعلق بلوغ المرام پڑھے، اس کے اردو انگلش تراجم بھی موجود ہیں ۔ متحدہ عرب امارات کے ایک شہر ام القیوین میں پورے یو اے ای کی جو سکولز بسیں ہیں ،ان کی مین ورکشاپ کے چیف انجینئر گجرات کے ایک پاکستانی تھے، ایک دفعہ میں نے انہیں یہ کتاب (بلو غ المرام ) دی اور کہا کہ اگر کسی بھی مسئلہ کی ضرورت ہو تو آپ اس کی فہرست کھول کر دیکھیں اور وہ والا مسئلہ کتاب سے نکال کر مطالعہ کرلیں۔ بعد میں جب ہماری دوسری ملاقات ہوئی تو وہ اتنا خوش اور متاثر تھے ، کہنے لگے کہ یوں لگتا ہے جیسے مفتی صاحب میرے گھر میں ہیں، کسی بھی مسئلہ کی ضرورت پڑتی ہے تو ا س میں سے مل جاتا ہے۔
یہ چند بنیادی کتب ہیں، انہیں گھر میں رکھیں، باقاعدگی سے مطالعہ کی عادت بنائیں اور مزید رہنمائی کے لیے علمائے کرام سے ضرور تعلق بنا کر رکھیں…!!
سوال: آپ نے ایک عرصہ وزارتِ عدل ( شرعی کورٹ) میں گزارا ہے، اس نظام کو آپ نے کیسا پایا ہے؟
جواب: متحدہ عرب امارات میں قیام کے دوران 15 سال اور سعودی عرب میں آکر 25 سال، مجموعی طور پر 40 سال وزارتِ عدل میں کام کیا ہے۔ اسی دوران عدالتی نظام کو چونکہ میں نے بہت قریب سے نہیں بلکہ نظام کے اندر رہ کر دیکھا ہے اور بہت بہترین پایا ہے۔ شروع میں کیس کم ہوتے تھے اور فیصلے بھی دنوں اور ہفتوں میں ہو جاتے تھے، پھر کیس بڑھنے لگے اور فیصلوں میں بھی غیر ارادی تاخیر ہونے لگی۔
اسی طرح میری سروس کے زمانے تک کیس کرنے سے لے کر فیصلےکا پیپر ہاتھ میں لینے تک، کوئی خرچہ نہیں تھا، سب فری تھا ، یوں کہہ سکتے ہیں کہ نظامِ عدل ٹوٹل فری اور نہایت تیز تھا۔ اب حکومت نے معمولی سی فیس بھی مقرر کر دی ہے۔
سوال: انٹرنیٹ کو استعمال کرنے کےبارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: دعوت و تبلیغ اور درس و تدریس کے لیے انٹرنیٹ وغیرہ کے استعمال کے سلسلے میں عرض ہے کہ انٹرنیٹ دو دھاری تلوار ہے۔ خیر کے لیے استعمال کریں تو اس میں خیر بہت زیادہ موجود ہے اور شر سے بھی یہ بھرا ہوا ہے، لہذا اسے استعمال کرنے والے کو چوکنا رہنا ہوگا۔ شیطان کا داؤ چل گیا تو پھر وہ شرکی طرف لے جائے گا اور اگر اللہ تعالیٰ کو رقیب مانتے ہوئے صرف خیر کے لیے استعمال کریں تو یہ بہت ہی مفید ہے، دنیا بھر کی لائبریریاں آپ کی جیب میں ڈال دیتا ہے۔ بس الحذر الحذر من الشر!
سوال: واٹس ایپ پر درجنوں مجموعات ہیں، ان سے متعلق کیا تبصرہ فرمائیں گے؟
جواب: واٹس ایپ پر مختلف قسم کے بے شمار گروپس ہیں اور کچھ خالص علمی و دعوتی ہیں اور یہ علمی و دعوتی گروپ اپنے میدان میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھی ان میں سے بعض ملکی سیاست اور جماعتی سیاست میں بھی گرم ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ بعض دفعہ تو گروپس میں ممبران کی حدّتِ طبع کی وجہ سے موسم اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ پسینہ آنے لگتا ہے، باقی سب خیریت ہے۔ ولله الحمد والمنة.
(تمت بالخیر)
[1] ۔ حافظ صاحب مرحوم سے متعلق شیخ محترم کے تاثرات ان کی وفات کے بعد ’العلماء ‘کی طرف سے نشرکردہ ایک ویڈیو میں موجود ہیں، جو کہ ’علما ٹیوب آفیشل’ پر سماعت کیے جاسکتے ہیں۔
[2] (https://mohammedmunirqamar.com/)