سوال (1449)

کیا شرکیہ عقائد رکھنے والے کو مسلم کہنا اور اسے رشتہ دینا قرآن و حدیث کی روشنی میں درست ہے ؟

جواب

ہر مؤمن موحد ہوتا ہے ، مشرک نہیں ہوتا ہے ، اگر مشرک ہو جائے تو پھر وہ مؤمن اور موحد نہیں رہتا ہے ، لیکن ہمارے معاشرے میں دعویٰ ایمان اور اسلام کا ہے ، کلمے کی بنیاد پر اس کو مسلم بھی قرار دیا جاتا ہے ، بعض لوگ ایسے ہیں جو مسلم قرار دیے جانے کے باوجود ظاہری کلمے کو دیکھتے ہوئے وہ نہ اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہیں ، نہ رسولوں کا انکار کرتے ہیں ، نہ فرشتوں کا انکار کرتے ہیں اور نہ کسی مسلمہ چیز کا انکار کرتے ہیں ، لیکن ان کے عقائد میں شرک ہے ، پھر نامزد کرکے کسی کو مشرک کہنا یہ بھاری اور وزنی چیز ہے ، ہر کس و ناکس کو اس کا بیڑا نہیں اٹھانا چاہیے ، اور نہ ہی اس طرح محراب و منبر اور تحریر و تقریر پر تنفر پھیلانا چاہیے ، ہاں اپنا دامن بچاکے رکھیں ، اس کی گاہے بگاہے مذمت کرتے رہیں ، جیسے جیسے ہمیں موقع ملے ، کہ یہ عقیدہ شرک ہے ، یہ عمل شرک ہے ، یہ فی زمانہ جینے ، سلوک اور برتاؤ کا طریقہ ہے ، البتہ جہاں تک رشتے کا معاملہ ہے ، جب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ فلاں صاحب کے عقیدے اور عمل میں شرک پایا جاتا ہے ، پھر رشتہ نہیں کرنا چاہیے ، قرآن مجید میں مشرکوں سے نکاح کرنے سے روکا گیا ہے ، لہذا اس چیز کو سمجھنا چاہیے ، لیکن اس چیز کو اس انداز سے نہیں لیا جائے کہ معاشرے میں تنفر پھیلے ، معاشرے میں موحدین کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنائی جائے، انہیں خارجی اور تکفیری قرار دیا جائے ، یہ بھی دور حاضر کا بہت بڑا مسئلہ ہے ، انسان اعتزال اور وحدت ادیان کی طرف نہ جائے ، بلکہ بیلنس رکھے ، کچھ چیزیں ہوتی ہیں جو پڑھی جاتی ہیں ، لیکن ہر جگہ بیان نہیں کی جاتی ہیں ۔ “لكل مكان مقال” کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

“حدثوا الناس بما يعرفون، أتريدون أن يُكذَّب اللهُ ورسولهُ”

ان سارے اصول و قواعد کو کبار اہل علم سے سیکھتے رہنا چاہیے ، اس کے بعد ہی فتویٰ بازی کا سلسلہ ہونا چاہیے ، جو انتہائی محدود اور مخصوص شخصیت کے لیے ہوتا ہے ، وہ اس طرح کی ہر بات کریں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ