سوال

میں اور میری بیوی دونوں آپس میں میاں بیوی کی طرح باتیں کر رہے تھے، لیکن میری بیوی باہر جانا چاہ رہی تھی، تو میں نے اسے کہا: ’جاؤ تم آزاد ہو‘ میری بیوی نے مجھے یہ کہنے سے روکا لیکن میں نے دو تین بار یہ بات کہہ دی، میں مذاق کر رہا تھا، میرا طلاق کا ارادہ نہیں تھا۔ لیکن ایک عالم دین نے کہا ہے کہ طلاق ہوگئی ہے، برائے مہربانی رہنمائی فرمادیں!

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

طلاق کی دو قسمیں ہیں: صریح اور کنایہ۔ پہلی قسم جس میں واضح طور پر لفظِ طلاق بولا جاتا ہے، وہ طلاق ہوجاتی ہے، چاہے نیت نہ بھی ہو۔ جبکہ دوسری قسم جس میں ’تم آزاد ہو‘’اپنے گھر چلی جاؤ‘ وغیرہ کے الفاظ بولے جاتے ہیں، تو یہ خاوند کی نیت پر منحصر ہے، اگر وہ واقعتا طلاق کی نیت سے اس قسم کے الفاظ بولے، تو یہ طلاق ہوجاتی ہے۔ جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جونیہ عورت  کو کہا تھا:

“الحقي بأهلك”  اپنے گھر والوں کے پاس چلی جاؤ۔ (بخاری:5254)

یہ الفاظ اگرچہ صریح طلاق کے نہیں ہیں، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے مراد طلاق تھی،  جیساکہ  امام ابن عبد البر  وغیرہ نے لکھا ہے۔ (الاستذکار6/23)

جبکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی یہی الفاظ اپنی بیوی کے لیے بولے تھے، البتہ ان کی مراد طلاق نہ تھی، لہذا ان کی طلاق واقع نہ ہوئی تھی۔(بخاری:4418)

گویا اس میں طلاق کے وقوع اور عدمِ وقوع کا فیصلہ نیت کے مطابق کیا جائے گا۔

آپ کی اگر طلاق کی نیت نہیں تھی، تو پھر طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن یہ گزارش ضرور ہے کہ ہنسی مزاح اور خوش طبعی کے لیے اس قسم کی حرکتیں مناسب نہیں ہیں۔ اللہ تعالی سب کو ہدایت دے اور رحم فرمائے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتيانِ كرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ