سوال (5316)

شوہر بیوی کو رفع الیدین کرنے سے روکتا ہے اور سختی سے منع کرتا ہے؟

جواب

عزیمت کا راستہ یہ ہے کہ وہ سر اٹھا کر رفع الیدین کرے، یہ تو رشتہ طے کرتے وقت اس کو سوچنا چاہیے تھا کہ آگے کیا ہوگا، اگر دلائل سننے کے بعد تعصب کی وجہ سے ڈٹا ہوا ہے تو پھر عورت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کو داؤ میں نہ لگائے، ایسے شخص سے خلع لے لے، کسی بڑے کو بیٹھائیں اس کو سمجھائیں کہ رفع الیدین ثابت ہے، لیکن تعصب کی بنا پر اس کی ناک کٹ جائے گی، کیونکہ اس کے گھر رفع الیدین ہوگا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اس میں میری رائے میں اسکو مندرجہ ذیل ترتیب سے چلنا چاہئے۔
1۔ پہلے تو وہ یہ دیکھے کہ شوہر شرک تو نہیں کرتا اگر ایسا ہے تو رفع یدین چھوٹا مسئلہ ہے شرک ظلم عظیم ہے پھر تو اس سے لازمی خلع لے لیں۔
2۔ اگر شرک نہیں خالی رفع یدین کا مسئلہ ہے تو پہلے یہ دیکھیں کہ کیا کسی صاحب علم کو بیچ میں ڈال کر اسکو اچھی طرح سمجھا دیں ہو سکتا ہے وہ ہٹ دھرم نہ ہو اور کسی صاحب علم و حکمت کی بات سن کر سمجھ جائے۔
3۔ اگر ایسا بھی ہو چکا ہے اور وہ پھر بھی ہٹ دھرمی کر رہا ہے تو پھر صاحب علم کی جگہ کسی خاندان کے بڑے کو بیچ میں ڈالیں اور اسکو کہیں کہ مجھے کسی احناف کے بڑے عالم سے صرف یہ فتوی لا دیں کہ جس نے رفع یدین کیا اسکی نماز نہیں ہو گی تو میں آج سے ہی رفع یدین چھوڑ دوں گا اور وہ ایسا فتوی نہیں لا سکے گا کیونکہ احناف کے ہاں بھی رفع یدین کرنے والوں کی نماز ہوتی ہے ورنہ وہ پیر عبدالقادر جیلانی اور امام شافعی وغیرہ کو امام ہی نہ مانتے۔
4۔ اگر اسکی ہٹ دھرمی اس سے بھی بڑھی ہوئی ہے اور صرف ضد میں کر رہا ہے تو پھر دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ آپ اس سے علیحدگی کو برداشت کر سکتی ہیں بچوں کا معاملہ یا کوئی مسئلہ بھی آپ برداشت کر سکتی ہیں تو پھر آپ اس سے علیحدہ ہو جائیں خلع لے لیں کیونکہ ایسے ہٹ دھرم انسان کے ساتھ رہنا ویسے ہی درست نہیں ہے لیکن اگر آپ کے بہت مسائل ہیں اور آپ یہ خلع نہیں برداشت کر سکتی ہیں تو پھر آپ مجبوری میں اسکے سامنے رفع یدین نہ کریں اور نماز علیحدہ پڑھ لیا کریں اور آپ کو رفع یدین کا ثواب مل جائے گا جیسا کہ کسی زبردستی کسی نے با جماعت نماز سے روک لیا اسکی نیت تھی تو اسکو ثواب پورا مل جاتا ہے۔ پس رفع یدین فرض نہیں ہے بلکہ سنت ہے اور نہ کرنے سے نماز ہو تو جاتی ہے مگر کامل ثواب نہیں ملتا جیسا کہ بہت سے علما کا فتاوی ہیں مثلا ابن باز کا فتوی ہے کہ

السنة رفع اليدين عند الإحرام وعند الركوع وعند الرفع منه وعند القيام إلى الثالثة بعد التشهد الأول لثبوت ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم , وليس ذلك واجبا بل سنة فعله المصطفى صلى الله عليه وسلم وفعله خلفاؤه الراشدون وهو المنقول عن أصحابه صلى الله عليه وسلم , فالسنة للمؤمن أن يفعل ذلك في جميع الصلوات وهكذا المؤمنة۔۔۔ كله مستحب وسنة وليس بواجب , ولو صلى ولم يرفع صحت صلاته۔

ترجمہ: تکبیر تحریمہ کہتے وقت، رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھنے کے بعد، اور پہلے تشھد کے بعد تیسری رکعت کے لیے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے اس کا کرنا ثابت ہے۔ لیکن یہ واجب نہیں سنت ہے۔ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم، خلفائے راشدین اور صحابہ کا اس پر عمل رہا ہے، پس ہر مومن مرد و عورت کو اپنی تمام نمازوں میں اسے اپنانا چاہیے۔۔۔ لیکن یہ سب مستحب اور سنت ہے، واجب نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص رفع الیدین کے بغیر نماز پڑھے تو اس کی نماز درست ہے۔ (مجموع فتاوٰی بن باز جلد 11 ص 156)
اسی طرح ابن عثیمین کا بھی یہی موقف ہے کہ:

وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة ۔وهذا الرفع سنة، إذا فعله الإنسان كان أكمل لصلاته، وإن لم يفعله لا تبطل صلاته، لكن يفوته أجر هذه السنة۔

البتہ آپ چونکہ ایسی صورت میں مجبور ہوں گی پس آپ کی رفع یدین کا اجر ضائع نہیں ہو گا اور آپ کی نماز ناقص کی بجائے مکمل ہو گی ان شا اللہ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ