سوال (4376)
میری شادی 1997 میں ہوئی۔ اس وقت حق مہر کے طور پر چار چڑیاں (سونے کی) طے پائیں، جن کی مالیت اُس وقت تقریباً پچاس ہزار روپے تھی۔ بعد میں میں نے وہ مالیت (پچاس ہزار روپے) اپنی بیوی کو ادا کر دی تھی، لیکن وقتاً فوقتاً ضرورت کے تحت وہ رقم میں نے واپس لے لی۔ یوں یہ معاملہ ادھار کی صورت میں چلتا رہا۔ اب بیوی کا مطالبہ ہے کہ مجھے وہی چار چڑیاں چاہیے، جن کی موجودہ قیمت تقریباً بارہ لاکھ روپے ہے۔ اب اس صورت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟
جواب
سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی بیوی کو حق مہر کی رقم (یعنی چڑیوں کی مالیت) بطور نقدی دی تھی، اور یہ رقم بعد میں ضرورتاً آپ نے واپس لے لی تھی۔ اگر واقعی ایسا ہی ہے کہ آپ نے سونے کی چڑیاں نہیں بلکہ ان کی مالیت بطور رقم دی تھی، تو اب آپ پر صرف وہی رقم واپس کرنا لازم ہے جو آپ نے بیوی سے لی تھی۔
البتہ اگر آپ نے اصل میں چڑیاں (یعنی سونے کی صورت میں مہر) دی تھیں، تو اب بھی چڑیاں ہی واپس دینا ہوں گی۔ صرف قیمت کاکہہ کر خود کو بری الذمہ نہیں کیا جا سکتا، خصوصاً اگر مہر کی ادائیگی اصل جنس میں ہوئی ہو۔
رہی یہ بات کہ آج کل سونا مہنگا ہو چکا ہے، تو چونکہ معاملہ گھریلو ہے، اس لیے بہتر ہے کہ افہام و تفہیم سے معاملہ حل کیا جائے۔ اگر مکمل ادائیگی ممکن نہ ہو، تو قسط وار یا بات چیت کے ذریعے باہمی رضامندی سے مسئلہ سلجھایا جا سکتا ہے۔ نرمی اور خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے، تاکہ گھر کا سکون متاثر نہ ہو۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ