سوال (6359)

میری شادی کو ایک سال اور تین ماہ ہو چکے ہیں۔ میرا شوہر مجھ سے بہت محبت کرتا ہے، میرا خیال رکھتا ہے، گھر کا کوئی کام نہیں کرواتا اور میری ہر بات کی عزت کرتا ہے۔ میں اس کی محبت اور اچھے اخلاق کو دل سے مانتی ہوں اور اس کی خدمت اور عزت کی قدر کرتی ہوں۔ لیکن ایک مسئلہ ہے جو مجھے جسمانی اور ذہنی طور پر بہت کمزور کر رہا ہے۔ میرا شوہر تقریباً ہر رات دو سے تین مرتبہ ہمبستری کرتا ہے، اور میں اپنی طاقت کی کمی کی وجہ سے یہ برداشت نہیں کر پا رہی۔ اس کی وجہ سے میری صحت متاثر ہو رہی ہے اور میں اکثر تھکن اور کمزوری محسوس کرتی ہوں۔ میں یہ بھی کہنا چاہتی ہوں کہ پورے ایک سال اور تین ماہ میں مجھے ایک رات بھی سکون سے نیند نہیں آئی، سوائے اُن چند راتوں کے جب مجھے حیض آتا ہے اور شوہر اس دوران ہمبستری نہیں کرتا۔ میں اپنے شوہر کی محبت اور اچھے سلوک کی قدر کرتی ہوں، لیکن اس صورتحال کے سبب میں خلع لینا چاہتی ہوں۔ شوہر دوسری شادی کے لیے راضی نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس صورتِ حال میں شریعت کے مطابق خلع لینا جائز ہے؟

جواب

سوال میں مذکور صورتحال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل کی کثرت سے اہلیہ کو ضرر پہنچ رہا ہے، اسکی رضامندی نہیں، صحت کا نقصان اور رات کا سکون برباد ہورہا ہے۔ اگر شوہر اعتدال پر کسی صورت نہیں آتا اور دوسری شادی بھی نہیں کرتا تو عورت اس عذر کی بناء پر خلع لے سکتی ہے۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

آپ کی صورتحال عجیب ہے کہ آپ نے اپنے شوہر کی محبت اور اچھے اخلاق کا اعتراف کیا ہے، جو کہ ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کی بنیاد ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی ایک ایسا مسئلہ بھی ذکر کیا جو آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت پر منفی اثر ڈال رہا ہے۔ اس صورتِ حال کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:
1. شریعت میاں بیوی کے تعلقات کو محبت، رحم دلی اور باہمی احترام پر مبنی قرار دیتی ہے۔ دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں جن کی ادائیگی ضروری ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے:

“وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ”

“اور عورتوں کے لیے بھی دستور کے مطابق (ویسے ہی حقوق ہیں) جیسے ان پر (مردوں کے) حقوق ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہے، اور اللہ زبردست حکمت والا ہے”۔ (سورۃ البقرۃ: 228)
اس آیت میں “بِالْمَعْرُوفِ” کا لفظ ہے، یعنی حقوق و فرائض کی ادائیگی معروف طریقے سے ہو، جو معاشرتی اور شرعی طور پر مناسب ہو۔
ہمبستری میاں بیوی دونوں کا حق ہے اور تعلق کو مضبوط کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ تاہم، یہ حق دوسرے فریق کو نقصان پہنچائے بغیر ادا ہونا چاہیے۔ اسلام میں نقصان پہنچانے کو سختی سے منع کیا گیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

“لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ”

“نہ خود نقصان اٹھاؤ اور نہ کسی دوسرے کو نقصان پہنچاؤ۔” (سنن ابن ماجہ، حدیث: 2340؛ مؤطا امام مالک، حدیث: 2758)
آپ کی بیان کردہ صورتحال کہ تقریباً ہر رات دو سے تین مرتبہ ہم بستری کرنا آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کر رہا ہے اور آپ کو آرام دہ نیند سے محروم کر رہا ہے، یہ درحقیقت آپ کے لیے ضرر (نقصان) کا باعث بن رہا ہے۔ شریعت کسی شخص کو ایسے کام پر مجبور نہیں کرتی جو اس کی صحت اور طاقت سے بڑھ کر ہو اور اسے نقصان پہنچائے۔
اہل علم کا موقف ہے کہ شوہر پر لازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اس طرح صحبت کرے کہ اسے ضرر نہ پہنچے اور اس کی پاکدامنی بھی محفوظ رہے۔ اگر اس سے تجاوز ہو اور بیوی کو نقصان پہنچے، تو یہ جائز نہیں۔
2. جہاں تک خلع لینے کی بات ہے تو خلع اس صورت میں ہوتا ہے جب بیوی اپنے شوہر سے ناخوش ہو اور مزید اس کے ساتھ رہنا نہ چاہتی ہو، اور وہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کے بدلے میں اپنا حق مہر یا کوئی اور مالی معاوضہ واپس کرنے پر آمادہ ہو۔
ارشادِ باری تعالی ہے:

“فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ”

“پھر اگر تمہیں ڈر ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود قائم نہ رکھ سکیں گے تو دونوں پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ عورت کچھ دے کر اپنی جان چھڑائے۔ یہ اللہ کی حدیں ہیں، ان سے تجاوز نہ کرو، اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرتے ہیں، سو وہی ظالم ہیں۔” (سورۃ البقرۃ 229)
اس آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان اس حد تک بگاڑ پیدا ہو جائے کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں اور ایک ساتھ رہنا مشکل ہو جائے، تو خلع جائز ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور عرض کیا: “یا رسول اللہ! میں ثابت بن قیس کی نہ تو اخلاق سے شکایت کرتی ہوں اور نہ دینداری سے، لیکن میں اسلام کے بعد کفر و نافرمانی سے ڈرتی ہوں۔” رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟” انہوں نے کہا: “جی ہاں۔” تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: “باغ قبول کر لو اور اسے طلاق دے دو۔” (صحیح بخاری، حدیث: 4971)
اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ اگر بیوی کو شوہر کے دین اور اخلاق سے کوئی شکایت نہ ہو، لیکن وہ کسی معتبر عذر کے سبب اس کے ساتھ رہنا ناپسند کرتی ہو، تو اسے خلع کا حق ہے۔
آپ کی صورتحال میں جہاں آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت متاثر ہو رہی ہے، یہ آپ کی اللہ کی حدود پر قائم رہنے میں رکاوٹ بن سکتی ہے، کیونکہ صحت کا متاثر ہونا عبادات اور دیگر فرائض کی ادائیگی میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
آپ کی بیان کردہ صورتحال میں جہاں آپ کا شوہر آپ سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور آپ کا خیال رکھتا ہے، لیکن اس کی جانب سے جنسی تعلقات کا حد سے زیادہ اصرار آپ کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے اور آپ کو آرام دہ نیند سے بھی محروم کر رہا ہے، یہ آپ کے لیے ایک شدید ضرر ہے۔ شریعت میں کسی بھی فریق کو ایسا نقصان اٹھانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
3. البتہ یاد رہے کہ خلع آخری آپشن ہے، اس سے پہلے آپ کو اپنے شوہر سے کھل کر اور ہمدردانہ انداز میں اپنی پریشانی اور صحت کے مسائل بیان کرنے چاہیئیں۔ انہیں بتائیں کہ آپ ان سے محبت کرتی ہیں لیکن یہ صورتحال آپ کی صحت کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ ممکن ہے وہ صورتحال کی شدت کو سمجھ نہ پا رہے ہوں۔
اسی طرح کسی ماہرِ نفسیات یا ازدواجی کونسلر سے مدد لی جا سکتی ہے، جو آپ کے شوہر کو اس مسئلے کی حساسیت اور آپ کی صحت پر اس کے اثرات سمجھانے میں مدد کرے۔
کسی مقامی عالمِ دین یا مفتی صاحب سے براہ راست مشاورت کریں، جو آپ کی صورتحال کو مکمل تفصیل سے سن کر مزید گہرائی سے رہنمائی کر سکیں۔
بہرصورت شرعی نقطہ نظر سے یہی بات سمجھ آتی ہے کہ اگر آپ کے مسئلے کا حل نہ ہو تو آپ کے لیے خلع کا مطالبہ کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ