سوال

ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کی دو بیویاں اور اولاد تھی۔ اس کی وفات کے بعد ابھی وراثت کی تقسیم نہیں ہوئی تھی کہ دونوں بیویوں میں سے ایک نے عدت گزارنے کے بعد دوسرا نکاح کر لیا۔ اب تقریباً بیس سال کے بعد وہ عورت اپنے پہلے شوہر کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دریافت یہ کرنا ہے کہ کیا دوسرا نکاح کرنے اور اتنا طویل وقت گزر جانے کے بعد بھی وہ اپنے مرحوم شوہر کی میراث کی حقدار ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جب کوئی مرد فوت ہوتا ہے تو اس کی بیوی اس کی وارث بنتی ہے۔ اس کے بعد وہ عورت عدت کے بعد دوسرا نکاح کرے یا نہ کرے، اس کے وراثتی حق پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ دوسرا نکاح اس کا شرعی حق ہے، اور وہ اپنی مرضی سے اپنا یہ حق استعمال کرکے آگے نکاح کرسکتی ہے۔

لہٰذا مذکورہ عورت چونکہ اپنے شوہر کے انتقال کے وقت اس کی زوجہ تھی، اس لیے وہ مکمل طور پر وراثت کی حقدار ہے، چاہے بعد میں اس نے دوسرا نکاح کر لیا تھا، اور چاہے کتنا ہی عرصہ گزر چکا ہے۔

کیونکہ وراثت کا حق میت کی وفات کے وقت ہی ثابت ہو جاتا ہے، اسکا وراثت کی تقسیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

“وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم”.  [النساء: 12]

’’اور اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری بیویوں کے لیے چوتھائی ہے، اور اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کے لیے تمہارے ترکہ سے آٹھواں حصہ ہے‘‘۔

چونکہ صورتِ مسئولہ میں میت کی اولاد موجود ہے، اس لیے بیویوں کو مجموعی طور پر ترکہ کا آٹھواں حصہ (1/8) ملے گا، جو دونوں بیویوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہو گا۔

اگر اولاد نہ ہوتی تو دونوں بیویوں کو مجموعی طور پر چوتھائی (1/4) ملتا، اور وہ بھی برابر تقسیم ہوتا۔

لہٰذا اب جبکہ وہ بیوی اپنے حق کا مطالبہ کر رہی ہے، تو اس کو اس کا یہ وراثتی حق دینا شرعاً واجب ہے، اور اس میں تاخیر یا انکار کرنا درست نہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ