سوال
میرا سوال یہ ہے کہ اگر کسی عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر خفیہ نکاح کیا ہو، اور بعد میں اسی شخص سے سب کے سامنے نیا نکاح کیا جائے، تو کیا پہلا نکاح باطل شمار ہوگا؟ اور اگر شوہر نے پہلے خفیہ نکاح کے بعد ایک طلاق دی، دوسرے نکاح کے بعد حمل کی حالت میں طلاق دی، پھر رجوع کیا، اور اب تیسری بار طلاق دے دی ہے، تو کیا یہ تین طلاقیں شمار ہوں گی؟ کیا اب رجوع کی کوئی گنجائش باقی ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرمائیں۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر پہلے نکاح کے وقت دو مسلمان، عاقل اور عادل گواہ موجود تھے اور حق مہر بھی مقرر تھا، تو اگرچہ ولی کی اجازت نہ ہونے کی وجہ سے یہ نکاح شرعاً صحیح نہیں بلکہ باطل ہے۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
“أَيُّمَا امْرَأَةٍ نَكَحَتْ بِغَيْرِ إِذْنِ وَلِيِّهَا، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ، فَنِكَاحُهَا بَاطِلٌ”. [سنن أبي داود: 2083، سنن الترمذی: 1102]
’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا ‘ اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باطل ہے‘‘۔
لیکن چونکہ نکاح کی بعض بنیادی شرائط (گواہوں کی موجودگی اور مہر کی تعیین وغیرہ) پوری ہو گئی ہیں، اس لیے یہ معاملہ نہ زنا ہے اور نہ ہی مکمل نکاح بلکہ یہ شبہ نکاح شمار ہوگا۔
جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اس صورت میں دخول کی صورت میں عورت کو مہر دیا جائے گا:
“فَلَهَا الْمَهْرُ بِمَا اسْتَحَلَّ مِنْ فَرْجِهَا”. [سنن أبي داود: 2083، سنن الترمذی: 1102]
اور ایسی صورت میں دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ ولی کی رضامندی سے پہلا نکاح ہی مکمل ہوجاتا ہے۔
اس لیے پہلے نکاح کے وقت اگر گواہ موجود تھے اور حق مہر مقرر تھا، تو اس بنیاد پر یہ شبہ نکاح ثابت ہو گیا۔
لہٰذا اگر شوہر نے پہلے یا دوسرے نکاح کے دوران تین طلاقیں الگ الگ مجالس میں دے دی ہیں، تو ہمارے رجحان کے مطابق یہ تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، کیونکہ اکثر علمائے کرام کے نزدیک شبہ نکاح (نکاح فاسد) میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اب رجوع کی گنجائش باقی نہیں، الا كہ اس عورت سے کوئی دوسرا شخص گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے، اور پھر وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
“فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ”. [البقرة: 230]
اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے، تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تک حلال نہيں ہو گى جب تک كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ