بہت سے الفاظ و اصطلاحات (terms) کا معاملہ یوں ہے کہ عملی اطلاق و شعوری احساس کے بغیر جن کا کثرتِ استعمال، ان کی روح و اِفادیت کو معطل کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس ذیل میں اپنے معاشرے کی نسبت سے بطورِ خاص “قانون” کے لفظ کو لے سکتے ہیں، کہ اب یہ ہمارے یہاں ایک بے جان اصطلاح کے سوا کچھ نہیں۔ سماجی سطح پر “سوری” نامی چار حرف کا یہی حال ہے۔ کسی کو خواہ کتنا ہی بڑے سے بڑا مادی، ذہنی، یا جذباتی زک پہنچے، نقصان کرنے والا یہ چار حرف پڑھ کر خود کو بری و مطمئن کر لیتا ہے۔ ایسی ہی اصطلاحات و روز مرہ جات میں شرعی و سماجی ہر دو سطح پر “شکریہ/ شکر/ تھینکس” جیسے احساس سے لبریز الفاظ خاصی مُردگی و بوسیدگی کا شکار ہو چکے ہیں۔
عموما شکر (الحمد) مُنعمِ حقیقی کا ادا کیا جاتا ہے اور شکریہ ہر عام محسن کا۔ مگر شکریہ ادا کرنے والا بالعموم جذبۂ شکر گزاری سے عاری ہوتا ہے، اور ان الفاظ کی ادائیگی محض ایک زبانی مشق کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
حقیقت یوں ہے کہ شکریہ بہ یک وقت تین آلات یا ذرائع سے ادا کیا جاتا ہے۔ یا یوں کہیے کہ شکریے کے تین ارکان (دل، زبان، باقی اعضا) ہیں، اور کسی ایک رُکن کی کمی سے اس جذبے کا کما حقّہٗ اظہار نہیں ہوتا۔
۱۔ یعنی سب سے پہلے اپنے مُنعِم و محسن کےلیے دل میں مودت و عزت کے جذبات ہوں۔
۲۔ پھر اس جذبے کا زبان سے اظہار و اقرار ہو۔
۳۔ پھر اس احساس و اظہار کا تقاضا یہ ہے کہ محسن کی منشا کا خیال رکھا جائے۔
شکریے کا “عمل” کے ذریعے سے ادا کرنا قرآن کی تعلیم بھی ہے اور صاحبِ قرآن کا عمل بھی۔ داود و سلیمان علیہما السلام کو نبوت و بادشاہت کی صورت جو نعمت بخشی گئی اور مختلف مخلوقات کی تسخیرِ کی صورت جو امتیاز بخشا گیا، ان سب کا ذکر کرنے کے بعد مطالبہ کیا گیا کہ ان احسانات کے بدلے میں “اے آلِ داودؑ! تم شکر بجا لاتے ہوئے عمل کرو۔۔۔” (سبا: ۱۳)
صاحب قرآن دن رات عبادت و ریاضت میں اپنا آپ ہلکان کیا کرتے؛ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ آپؐ تو بخشے بخشائے ہیں، پھر یہ سب کشٹ کیوں کر اٹھاتے ہیں؟ زبانِ رسالت سے جواب ملا کہ: (اس احسان کے بدلے) “کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔” (بخاری: 4836)
درج بالا اصول واضح ہو جانے کے بعد، اگر منعم و مشکور باری تعالی کی ذات ہے تو اس کا شکریہ/ شکر یوں ادا ہوگا کہ دل میں مشکور علیہ نعمت کا احساس ہو اور اس نعمت کو بخشنے والے کی قدر، منزلت، محبت اور وقار کا پاس ہو۔ اس کی بخشی ہوئی نعمتوں کا اس کے حکم و منشا کے تابع رہ کر استعمال کیا جائے۔ کیونکہ ہر نعمت کی شکرگزاری اس نعمت کو بہترین مصرف میں صرف کر کے ادا کی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ خدائی وعدے کے مطابق نعمت میں افزودگی و بھروتری کی صورت میں نکلتا ہے، دیگر صورت میں نعمت سے محرومی و ابتلا کی صورت۔ “اگر تم شکر کرو تو میں تمھیں مزید دوں گا، اگر ناشکری کا ارتکاب کرو تو میرا عذاب شدید ہے” (إبراهیم:۷)
اور اگر محسن کوئی انسان ہو تو دل میں اس کی قدر و احساس اور زبان پر اعتراف کے ساتھ اُس کی ہر وقت خیر خواہی پیش نظر ہونی چاہیے۔ جب کبھی اس کو ضرورت پڑے تو عملا اس کے کام آنا بھی شکر گزاری کا لازمی تقاضا ہے۔ اس کے برعکس عمل کو معاشرہ بھی احسان فراموشی و نمک حرامی جیسی قبیح صفات یاد کرتا ہے۔
طائف سے واپسی پر نبی مکرّمﷺ کو کفار نے مکہ میں داخل ہونے سے روکا، ایسے میں المُعطِم بن عدی نے آپؐ کو اپنے امان میں لیا اور مکہ داخل کرایا۔ انسانیت کے حقیقی اور سب سے بڑے محسنﷺ کو اپنے کافر محسن کے اس احسان کا پاس و لحاظ اس کی موت کے بعد بھی رہا۔ بدر کے موقعے پر قیدیوں سے متعلق فرمایا کہ: “اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا (بھلے کافر ہوتا) اور وہ مجھ سے اِن بدبودار لوگوں کی سفارش کرتا تو میں (اس کے احسان کے بدلے) ان سب کو چھوڑ دیتا۔”          (بخاری: 4024)

زاہد سعیدؔ