سوال (4339)
سیدہ خنساء رضی اللہ عنہا کا نام “تماضر” تھا، خنساء لقب ہے، قبیلہ قیس کے خاندانِ سلیم سے ہیں۔ سلسلہ نسب یہ ہے: خنساء بنت عمرو بن الشرید بن رباح بن ثعلبہ بن عُصَیَّۃ بن خفاف بن امریٔ القیس بن بُہثہ بن سلیم بن منصور بن عکرمہ بن حفصہ بن قیس بن عیلان بن مضر۔ نجد کی رہنے والی تھیں۔
عام حالات: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ (عراق) میں جنگ ہوئی تو حضرت خنساء رضی اللہ عنھا اپنے چار بیٹوں کو لے کر میدان میں آئیں اور ان کو مخاطب کرکے یہ نصیحت کی: ’’پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے ورنہ تم اپنے ملک کو بھاری نہ تھے، اور نہ تمہارے یہاں قحط پڑا تھا باوجود اس کے تم اپنی بوڑھی ماں کو یہاں لائے اور فارس کے آگے ڈال دیا۔ خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہے، خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
یٰااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا وَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا
اس بنا پر صبح اُٹھ کر لڑنے کی تیاری کرو اور آخر وقت تک لڑو۔ چناں چہ بیٹوں نے ایک ساتھ باگیں اُٹھائیں اور نہایت جوش میں رجز پڑھتے ہوئے بڑھے اور شہید ہوئے، حضرت خنساءؓ کو خبر ہوئی تو خدا کا شکر ادا کیا۔ حضرت عمرؓ ان لڑکوں کو ۲۰۰ درہم سالانہ وظیفہ عطا کرتے تھے، ان کی شہادت کے بعد یہ رقم حضرت خنساءؓ کو ملتی رہی۔
اولاد: چار لڑکے تھے جو قادسیہ میں شہید ہوئے ان کے نام یہ ہیں: ’’عبد اللہ، ابو شجرہ (پہلے شوہر سے) زید، معاویہ (دوسرے شوہر سے)ؓ۔‘‘
فضل و کمال: اقسامِ سخن میں سے مرثیہ میں حضرت خنساء رضی اللہ عنھا اپنا جواب نہیں رکھتی تھیں۔
“ناقدانِ سخن کا فیصلہ ہے کہ خنساء رضی اللہ عنھا کے برابر کوئی عورت شاعر نہیں پیدا ہوئی۔‘‘
وفات: اس واقعہ کے دس برس کے بعد حضرت خنساءؓ نے وفات پائی، سالِ وفات ۲۴ ہجری ہے۔
اس واقعہ کا حوالہ اور حکم درکار ہے؟
جواب
اس واقعے کے چند حوالات ذکر کیے جا رہے ہیں۔
(1) : الاستيعاب في معرفة الأصحاب، ابن عبد البر جلد: 4، ترجمہ خنساء بنت عمرو
(2) : سیر اعلام النبلاء، امام ذہبی، جلد: 2، ص: 231
(3) : تاریخ طبری، واقعات قادسیہ
(4) : العقد الفريد- ابن عبد ربه جلد 3، باب الشجاعة والكرم
(5) : صفوة الصفوة- ابن الجوزي جلد: 2، ذكر الصحابيات
فضیلۃ الباحث حافظ عبد اللہ یونس حفظہ اللہ