“یارِ غار، رفیقِ سفر، صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی رفاقتِ نبوی”
جب جبرئیل وحی لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو اس وقت مکہ والوں کے لیے یہ وحی یعنی شریعت ایک عجیب چیز تھی، اس وحی کو فوراً قبول کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ تھا، کیونکہ مکہ کا معاشرہ بہت بگڑ چکا تھا، جہاں ہر گناہ عام تھا، شرک سے لے کر ہر چھوٹے بڑے گناہ ان کے اندر پائے جاتے تھے، ایسے ماحول میں فوراً اسلام قبول کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں تھا، گویا اسلام قبول کرنا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینا پورے مکہ کے ساتھ دشمنی لینے کے مترادف تھا، لیکن ایسے میں یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رفیق سفر، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو کہی تھی کہ میرے پاس آسمانوں سے جبرئیل آیا، اس نے مجھے اللہ کا کلام سنایا، اب مجھے نبوت کا تاج پہنایا گیا ہے، تو صدیق اکبر نے بلا جھجک اسلام قبول کر لیا تھا، مکہ والوں کی قوت و دشمنی کی پرواہ نہیں کی، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے مسلم ہونے کا شرف بھی آپ کے حصے میں آیا ہے، السابقون الاولون کی لسٹ میں پہلا نام آپ رضی اللہ عنہ کا درج ہوا، لیکن صدیق اکبر کا یہ ساتھ نبوت سے پہلے اور بعد سے لے کر وفات رسول تک برقرار رہا، خواہ مکے کے گھاٹیوں میں اسلام کی دعوت کو عام کرنا ہو، دعوتی سفر میں مشرکین کی طرف تکالیف دہ مراحل برداشت کرنے ہوں، خواہ وہ ہجرت کا موقع ہو، خواہ بدر، احد، احزاب، صلح حدیبیہ یا تبوک ہو، خواہ اس راستے میں مال خرچ کرنا ہو، لیکن یہ رفاقت ایسی تھی، جس نے کبھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا ہونے نہیں دیا ہے، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام میں کئی قربانیوں کی وجہ سے کئی فضائل و مناقب کے مالک بنے، آپ رضی اللہ عنہ اسراء و معراج کے موقع پر بغیر تحقیق اور بغیر پوچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کی بنا پر صدیق کے لقب سے مشرف ہوئے تھے، آپ رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست بھی تھے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے ساتھ رشتہ جوڑنے کے لیے جبرئیل آسمان سے صدیق کی بیٹی (سیدہ عائشہ) کی تصویر لے کر حاضر ہوئے کہ اے محمد! یہ سیدہ عائشہ آپ کی دنیا و آخرت میں بیوی ہے، یوں صدیق اکبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر بھی بنے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں عملاً و قولا کئی مقامات پر یہ بات واضح کی ہے کہ میرے بعد میرے مصلے اور امامت کا حقدار میرے دوست صدیق اکبر ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر کے بھی ساتھی ہیں، جنت میں بھی ساتھ ہونگے، ہم درج ذیل کچھ حوالاجات ذکر کرتے ہیں۔ جس میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی رفاقتِ نبوی کا منظر ہو۔
(1) “محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ کی بزبانی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بے مثال رفاقت”:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
” إِنِّي كُنْتُ كَثِيرًا أَسْمَعُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ذَهَبْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَدَخَلْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ” [صحيح البخاري: 3685]
«میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ میں ، ابوبکر اور عمر گئے ، میں ، ابوبکر اور عمر داخل ہوئے۔ میں، ابوبکر اور عمر باہر آئے»
(2) “نبی کے پیغام پر لبیک کہنے والا پہلا انسان “:
سیدنا ابو امامہ باہلی سیدنا عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ:
“کُنْتُ وَأَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَظُنُّ أَنَّ النَّاسَ عَلَی ضَلَالَةٍ وَأَنَّهُمْ لَيْسُوا عَلَی شَيْئٍ وَهُمْ يَعْبُدُونَ الْأَوْثَانَ فَسَمِعْتُ بِرَجُلٍ بِمَکَّةَ يُخْبِرُ أَخْبَارًا فَقَعَدْتُ عَلَی رَاحِلَتِي فَقَدِمْتُ عَلَيْهِ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَخْفِيًا جُرَئَائُ عَلَيْهِ قَوْمُهُ فَتَلَطَّفْتُ حَتَّی دَخَلْتُ عَلَيْهِ بِمَکَّةَ فَقُلْتُ لَهُ مَا أَنْتَ قَالَ أَنَا نَبِيٌّ فَقُلْتُ وَمَا نَبِيٌّ قَالَ أَرْسَلَنِي اللَّهُ فَقُلْتُ وَبِأَيِّ شَيْئٍ أَرْسَلَکَ قَالَ أَرْسَلَنِي بِصِلَةِ الْأَرْحَامِ وَکَسْرِ الْأَوْثَانِ وَأَنْ يُوَحَّدَ اللَّهُ لَا يُشْرَکُ بِهِ شَيْئٌ قُلْتُ لَهُ فَمَنْ مَعَکَ عَلَی هَذَا قَالَ حُرٌّ وَعَبْدٌ قَالَ وَمَعَهُ يَوْمَئِذٍ أَبُو بَکْرٍ وَبِلَالٌ مِمَّنْ آمَنَ بِهِ» [صحيح مسلم: 732]
«میں زمانہ جاہلیت میں خیال کرتا تھا کہ لوگ گمراہی میں مبتلا ہیں اور وہ کسی راستے پر نہیں ہیں اور وہ سب لوگ بتوں کی پوجا پاٹ کرتے ہیں میں نے ایک آدمی کے بارے میں سنا کہ وہ مکہ میں بہت سی خبریں بیان کرتا ہے تو میں اپنی سواری پر بیٹھا اور ان کی خدمت میں حاضر ہوا یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر رہ رہے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلط تھی پھر میں نے ایک طریقہ اختیار کیا جس کے مطابق میں مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نبی ہوں، میں نے عرض کیا نبی کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے، میں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس چیز کا پیغام دے کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ پیغام دے کر بھیجا ہے کہ صلہ رحمی کرنا اور بتوں کو توڑنا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا میں نے عرض کیا کہ اس مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک آزاد اور ایک غلام راوی نے کہا کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے»
(3) “ہر دن صدیق کے ساتھ”:
سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں:
“لَقَلَّ يَوْمٌ كَانَ يَأْتِي عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا يَأْتِي فِيهِ بَيْتَ أَبِي بَكْرٍ أَحَدَ طَرَفَيِ النَّهَارِ” [صحيح البخاري: 2138]
«ایسے دن مکی زندگی میں بہت ہی کم آئے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام میں کسی نہ کسی وقت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف نہ لائے ہوں»
(4) “رات کی باتیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و صدیق رضی اللہ عنہ کا قربت بھرا لمحہ”:
سیدنا عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“وَ كَانَ أَبُو بَكْرٍ يَتَحَدَّثُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ” [سنن ابي داود: 3270]
«سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بات چیت کیا کرتے تھے»
(5) “رفاقتِ نبوی کا اعلیٰ ترین درجہ”:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ وَلَكِنْ أَخِي وَصَاحِبِي” [صحيح البخاري: 3656]
«اگر میں اپنی امت کے کسی فرد کو اپنا جانی دوست بنا سکتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے دینی بھائی اور میرے ساتھی ہیں»
(6) “میرے دوست کو نہ ستاؤ”:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي إِلَيْكُمْ فَقُلْتُمْ كَذَبْتَ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ وَوَاسَانِي بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَهَلْ أَنْتُمْ تَارِكُوا لِي صَاحِبِي مَرَّتَيْنِ فَمَا أُوذِيَ بَعْدَهَا” [صحيح البخاري: 3661]
«اللہ نے مجھے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا تھا۔ اور تم لوگوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، لیکن ابوبکر نے کہا تھا کہ آپ سچے ہیں اور اپنی جان و مال کے ذریعہ انہوں نے میری مدد کی تھی تو کیا تم لوگ میرے دوست کو ستانا چھوڑتے ہو یا نہیں؟ آپ نے دو دفعہ یہی فرمایا: آپ کے یہ فرمانے کے بعد پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا»
(7) “مکہ کی گلیوں میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا نبوی دفاع”:
عروۃ بن الزبیر فرماتے ہیں کہ:
“سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَشَدِّ مَا صَنَعَ الْمُشْرِكُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فِي عُنُقِهِ فَخَنَقَهُ بِهِ خَنْقًا شَدِيدًا، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى دَفَعَهُ عَنْهُ، فَقَالَ: أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا أَنْ يَقُولَ: رَبِّيَ اللَّهُ وَقَدْ جَاءَكُمْ بِالْبَيِّنَاتِ مِنْ رَبِّكُمْ” [صحيح البخاري: 3678]
«میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مشرکین مکہ کی سب سے بڑی ظالمانہ حرکت کے بارے میں پوچھا جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی تھی تو انہوں نے بتلایا کہ میں نے دیکھا کہ عقبہ بن ابی معیط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، اس بدبخت نے اپنی چادر آپ کی گردن مبارک میں ڈال کر کھینچی جس سے آپ کا گلا بڑی سختی کے ساتھ پھنس گیا۔ اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آئے اور اس بدبخت کو دفع کیا اور کہا کیا تم ایک ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ تعالیٰ ہے اور وہ تمہارے پاس اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی دلیلیں بھی لے کر آیا ہے»
(8) “رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم غیر موجودگی میں بھی ایمان کی تصدیق”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“بَيْنَمَا رَاعٍ فِي غَنَمِهِ عَدَا عَلَيْهِ الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً فَطَلَبَهُ الرَّاعِي فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ: مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِي، وَبَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَقَرَةً قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا فَالْتَفَتَتْ إِلَيْهِ فَكَلَّمَتْهُ، فَقَالَتْ: إِنِّي لَمْ أُخْلَقْ لِهَذَا وَلَكِنِّي خُلِقْتُ لِلْحَرْثِ، قَالَ: النَّاسُ سُبْحَانَ اللَّهِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَإِنِّي أُومِنُ بِذَلِكَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا” [صحيح البخاري : 3663]
« ایک چرواہا اپنی بکریاں چرا رہا تھا کہ بھیڑیا آگیا اور ریوڑ سے ایک بکری اٹھا کرلے جانے لگا۔ چرواہے نے اس سے بکری چھڑانی چاہی تو بھیڑیا بول پڑا، درندوں والے دن میں اس کی رکھوالی کرنے والا کون ہوگا جس دن میرے سوا اور کوئی چرواہا نہ ہوگا۔ اسی طرح ایک شخص بیل کو اس پر سوار ہو کرلیے جا رہا تھا، بیل اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ میری پیدائش اس کے لیے نہیں ہوئی ہے۔ میں تو کھیتی باڑی کے کاموں کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ وہ شخص بول پڑا۔ سبحان اللہ! “جانور اور انسانوں کی طرح باتیں کرے” نبی کریم صلی اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں ان واقعات پر ایمان لاتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بن خطاب بھی»
(9) “ہجرت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفاداری کا کردار”:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ، فَرَأَيْتُ آثَارَ الْمُشْرِكِينَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ رَفَعَ قَدَمَهُ رَآنَا، قَالَ: مَا ظَنُّكَ بِاثْنَيْنِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا” [صحيح البخاري: 4663]
«میں غار ثور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، میں نے کافروں کے پاؤں دیکھے جو ہمارے سر پر کھڑے ہوئے تھے، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ گھبرا گئے اور بولے: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کسی نے ذرا بھی قدم اٹھائے تو وہ ہم کو دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا سمجھتا ہے ان دو آدمیوں کو کوئی نقصان پہنچا سکے گا، جن کے ساتھ تیسرا اللہ تعالیٰ ہو»
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِأَقْدَامِ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْ أَنَّ بَعْضَهُمْ طَأْطَأَ بَصَرَهُ رَآنَا، قَالَ: اسْكُتْ يَا أَبَا بَكْرٍ اثْنَانِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا” [صحيح البخاري: 3922]
«میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا، میں نے جو سر اٹھایا تو قوم کے چند لوگوں کے قدم باہر نظر آئے میں نے کہا، اے اللہ کے نبی! اگر ان میں سے کسی نے بھی نیچے جھک کر دیکھ لیا تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابو بکر! خاموش رہو ہم ایسے دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے»
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَيَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى ؕ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ” [سورة التوبة: 40]
«جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کر دی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے»
(10) “مدینے میں تشریف آوری اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف صدیق اکبر”:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَنَزَلَ أَعْلَى الْمَدِينَةِ فِي حَيٍّ يُقَالُ لَهُمْ بَنُو عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَأَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ أَرْبَعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَى بَنِي النَّجَّارِ فَجَاءُوا مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَأَبُو بَكْرٍ رِدْفُهُ وَ مَلَأُ بَنِي النَّجَّارِ حَوْلَهُ” [صحيح البخاري: 428]
«جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے اور یہاں پہ چوبیس راتیں قیام فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نجار کو بلا بھیجا، تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، انس نے کہا، گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں، جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بنو نجار کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف ہیں»
(11) “بدر کے میدان میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونا”:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن دعا فرما رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خیمہ میں تشریف فرما تھے۔
“اللَّهُمَّ إِنِّي أَنْشُدُكَ عَهْدَكَ وَوَعْدَكَ، اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْيَوْمِ، فَأَخَذَ أَبُو بَكْرٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: حَسْبُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلَى رَبِّكَ وَهُوَ فِي الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَهُوَ، يَقُولُ: سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ، بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَى وَأَمَرُّ [سورة القمر: 45-46] وَقَالَ وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَوْمَ بَدْرٍ” [صحيح البخاري: 2915]
«اے اللہ! میں تیرے عہد اور تیرے وعدے کا واسطہ دے کر فریاد کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے گی، اس پر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیا اور عرض کیا: بس کیجئے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے حضور میں دعا کی حد کردی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت زرہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو زبان مبارک پر یہ آیت تھی،
“سيهزم الجمع و يولون الدبر، بل الساعة موعدهم و الساعة أدهى وأمر”
جماعت مشرکین جلد ہی شکست کھا کر بھاگ جائے گی اور پیٹھ دکھانا اختیار کرے گی اور قیامت کے دن کا ان سے وعدہ ہے اور قیامت کا دن بڑا ہی بھیانک اور تلخ ہوگا اور وہیب نے بیان کیا ، ان سے خالد نے بیان کیا کہ بدر کے دن کا یہ واقعہ ہے ۔
(12) احد کے میدان میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونا”:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا مِنَ الرُّمَاةِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ: لَا تَبْرَحُوا إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلَا تَبْرَحُوا، وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلَا تُعِينُونَا، فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ فَأَخَذُوا يَقُولُونَ: الْغَنِيمَةَ، الْغَنِيمَةَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَبْرَحُوا فَأَبَوْا، فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلًا، وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ ؟ فَقَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ ؟ قَالَ: لَا تُجِيبُوهُ، فَقَالَ: أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ؟ إِنَّ هَؤُلَاءِ قُتِلُوا، فَلَوْ كَانُوا أَحْيَاءً لَأَجَابُوا.” [صحيح البخاري: 4043]
«جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کی ماتحتی میں پہاڑی پر مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آگئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آگئے، تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا۔ پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کے تیرانداز ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ ، لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کردیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ابوسفیان نے پہاڑی پر سے آواز دی، کیا تمہارے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جواب نہ دے، پھر انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن ابی قحافہ موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب کی بھی ممانعت فرما دی۔ انہوں نے پوچھا، کیا تمہارے ساتھ ابن خطاب موجود ہیں؟ اس کے بعد وہ کہنے لگے کہ یہ سب قتل کردیے گئے۔ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے»
(13) “حدیبیہ، صدیق رضی اللہ عنہ کی بصیرت کا مظہر”
سیدنا سھل بن حنیف نے فرمایا ہے کہ:
” فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ: بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ” [صحيح البخاري: 3182]
« ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے، عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے یعنی حدیبیہ میں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کرچکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورة فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔
(14) “ہر سفر کا ہمسفر، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نبوی محبت”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:
“خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ أَوْ بِذَاتِ الْجَيْشِ انْقَطَعَ عِقْدٌ لِي فَأَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْتِمَاسِهِ، وَأَقَامَ النَّاسُ مَعَهُ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ فَأَتَى النَّاسُ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالُوا: أَلَا تَرَى مَا صَنَعَتْ عَائِشَةُ أَقَامَتْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِالنَّاسِ مَعَهُ، وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاضِعٌ رَأْسَهُ عَلَى فَخِذِي قَدْ نَامَ، فَقَالَ: حَبَسْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسَ وَلَيْسُوا عَلَى مَاءٍ وَلَيْسَ مَعَهُمْ مَاءٌ، قَالَتْ: فَعَاتَبَنِي، وَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: وَجَعَلَ يَطْعُنُنِي بِيَدِهِ فِي خَاصِرَتِي فَلَا يَمْنَعُنِي مِنَ التَّحَرُّكِ إِلَّا مَكَانُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَخِذِي، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَصْبَحَ عَلَى غَيْرِ مَاءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ التَّيَمُّمِ، فَتَيَمَّمُوا، فَقَالَ: أُسَيْدُ بْنُ الْحُضَيْرِ مَا هِيَ بِأَوَّلِ بَرَكَتِكُمْ يَا آلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَبَعَثْنَا الْبَعِيرَ الَّذِي كُنْتُ عَلَيْهِ فَوَجَدْنَا الْعِقْدَ تَحْتَهُ” [صحيح البخاري: 3672]
«ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے جب ہم مقام بیداء یا مقام ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار ٹوٹ کر گر گیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش کے لیے وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ ٹھہرے لیکن نہ اس جگہ پانی تھا اور نہ ان کے پاس پانی تھا۔ لوگ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر کہنے لگے کہ آپ ملاحظہ نہیں فرماتے، عائشہ رضی اللہ عنھا نے کیا کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں روک لیا ہے۔ اتنے صحابہ آپ کے ساتھ ہیں۔ نہ تو یہاں پانی ہے اور نہ لوگ اپنے ساتھ (پانی) لیے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اندر آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ وہ کہنے لگے، تمہاری وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا۔ اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ کو منظور تھا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں چوکہ مارنے لگے ۔ میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے۔ جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا نے بیان کیا کہ پھر ہم نے جب اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے ہمیں ملا»
(15) “اُحد کی بلندیوں پر نبوی رفاقت کی جھلک” :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَعِدَ أُحُدًا وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ، فَقَالَ: اثْبُتْ أُحُدُ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ نَبِيٌّ وَصِدِّيقٌ وَشَهِيدَانِ” [صحيح البخاري : 3675]
«جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کو ساتھ لے کر احد پہاڑ پر چڑھے تو احد کانپ اٹھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احد ! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں۔
(16) : “صدیق اکبر سسر بھی، دوست بھی اور خلیفہ بھی”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:
“أَنَّ جِبْرِيلَ جَاءَ بِصُورَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيرٍ خَضْرَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ” [سنن الترمذي : 3880]
«جبرائیل علیہ السلام ایک سبز ریشم کے ٹکڑے پر ان کی تصویر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور کہا: یہ آپ کی بیوی ہیں، دنیا اور آخرت دونوں میں»
(17) “ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر احسان دولت و صحبت کی قربانی”:
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْعَبْدَ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، قَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ لَا تَبْكِ، إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ” [صحيح البخاري : 466]
«ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کرلی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے ۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ ابو بکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن (جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہوسکتی) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے »
(18) “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وعدوں کا نگہبان: صدیق اکبر رضی اللہ عنہ”:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ قَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: مَنْ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنِي فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ، قَالَ لِي: لَوْ قَدْ جَاءَنَا مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَأَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، فَقَالَ لِي: احْثُهُ فَحَثَوْتُ حَثْيَةً، فَقَالَ لِي: عُدَّهَا فَعَدَدْتُهَا فَإِذَا هِيَ خَمْسُ مِائَةٍ فَأَعْطَانِي أَلْفًا وَخَمْسَ مِائَةٍ” [صحيح البخاري: 3164]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر ہمارے پاس بحرین سے روپیہ آیا، تو میں تمہیں اتنا، اتنا، اتنا (تین لپ) دوں گا۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور اس کے بعد بحرین کا روپیہ آیا تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی سے کوئی دینے کا وعدہ کیا ہو تو وہ ہمارے پاس آئے۔ چناچہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا روپیہ ہمارے یہاں آیا تو میں تمہیں اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ اچھا ایک لپ بھرو، میں نے ایک لپ بھری، تو انہوں نے فرمایا کہ اسے شمار کرو، میں نے شمار کیا تو پانچ سو تھا، پھر انہوں نے مجھے ڈیڑھ ہزار عنایت فرمایا»
(19) “مسجد نبوی میں صرف ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دروازہ کھلا رہنا”:
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
“لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ”[صحيح البخاري: 466]
«مسجد میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں»
(20) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں صدیق رضی اللہ عنہ کا وقار:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِحْدَى صَلَاتَيِ الْعَشِيِّ، فَصَلَّى بِنَا رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ، فَقَامَ إِلَى خَشَبَةٍ مَعْرُوضَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَاتَّكَأَ عَلَيْهَا كَأَنَّه غَضْبَانُ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى وَشَبَّكَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، وَوَضَعَ خَدَّهُ الْأَيْمَنَ عَلَى ظَهْرِ كَفِّهِ الْيُسْرَى، وَخَرَجَتِ السَّرَعَانُ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ، فَقَالُوا: قَصُرَتِ الصَّلَاةُ وَفِي الْقَوْمِ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، فَهَابَا أَنْ يُكَلِّمَاهُ “[صحيح البخاري: 482]
«رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی، ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی ہے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہوگئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کردی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنھما بھی موجود تھے۔ لیکن انہیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی»
(21) “خطبہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صدیق رضی اللہ عنہ و فاروق رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی”:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ قَدِمَتْ عِيرٌ إِلَی الْمَدِينَةِ فَابْتَدَرَهَا أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّی لَمْ يَبْقَ مَعَهُ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فِيهِمْ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ قَالَ وَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا” [صحيح مسلم : 863]
«نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہو کر ہمیں بیان فرما رہے تھے تو مدینہ منورہ کی طرف ایک قافلہ آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اس کی طرف بڑھے یہاں تک کہ بارہ آدمیوں کے سوا ان میں کوئی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باقی نہ رہا ان بارہ آدمیوں میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور جب کوئی تجارت یا کھیل وغیرہ کی چیز دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بڑھ جاتے ہیں»
(22) “نماز میں مغفرت کی دعا : صدیق رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست”:
سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: قُلْ، اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّك أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ. [صحيح البخاري: 834]
«انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا پڑھا کرو
“اللهم إني ظلمت نفسي ظلما کثيرا ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لي مغفرة من عندک، وارحمني إنك أنت الغفور الرحيم”
اے اللہ! میں نے اپنی جان پر گناہ کر کے بہت زیادہ ظلم کیا پس گناہوں کو تیرے سوا کوئی دوسرا معاف کرنے والا نہیں۔ مجھے اپنے پاس سے بھرپور مغفرت عطا فرما اور مجھ پر رحم کر کہ مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا بیشک وشبہ تو ہی ہے»
(23) “صدیق رضی اللہ عنہ کی محبت کا اظہار”:
سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَاعَةٍ لَا يَخْرُجُ فِيهَا وَلَا يَلْقَاهُ فِيهَا أَحَدٌ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا أَبَا بَكْرٍ ؟ فَقَالَ: خَرَجْتُ أَلْقَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنْظُرُ فِي وَجْهِهِ وَالتَّسْلِيمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ جَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: مَا جَاءَ بِكَ يَا عُمَرُ؟ قَالَ: الْجُوعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا قَدْ وَجَدْتُ بَعْضَ ذَلِكَ” [سنن الترمذي: 2369، صحیح ]
«نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے»
(24) “صدیقِ اکبر کا عہدِ رسالت کے بعد کا نبوی رشتہ”:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
“وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي” [صحيح البخاري: 3712]
«اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت والوں سے سلوک کرنا مجھ کو اپنی قرابت والوں کے ساتھ سلوک کرنے سے زیادہ پسند ہے»
(25) عیادتِ جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و صدیق رضی اللہ عنہ کا پیدل سفر:
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
“مَرِضْتُ فَعَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَ هُمَا مَاشِيَانِ، فَأَتَانِي وَقَدْ أُغْمِيَ عَلَيَّ فَتَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَبَّ عَلَيَّ وَضُوءَهُ فَأَفَقْتُ. فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَصْنَعُ فِي مَالِي، كَيْفَ أَقْضِي فِي مَالِي فَلَمْ يُجِبْنِي بِشَيْءٍ حَتَّى نَزَلَتْ آيَةُ الْمَوَارِيثِ” [صحيح البخاري: 5651]
«میں بیمار پڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میری عیادت کے لیے تشریف لائے، دونوں حضرات پیدل چل کر آئے تھے۔ دونوں حضرات جب آئے تو مجھ پر غشی طاری تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور وضو کا پانی میرے اوپر چھڑکا مجھے ہوش ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنے مال کی (تقسیم) کس طرح کروں؟ یا اپنے مال کا کس طرح فیصلہ کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ میراث کی آیتیں نازل ہوئیں»
(26) “رحمت و رفاقت کا منظر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ایک گھر میں”:
محمود بن الربیع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
”أَنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنْ الْأَنْصَارِ، أَنَّهُ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي وَأَنَا أُصَلِّي لِقَوْمِي، فَإِذَا كَانَتِ الْأَمْطَارُ سَالَ الْوَادِي الَّذِي بَيْنِي وَبَيْنَهُمْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ آتِيَ مَسْجِدَهُمْ فَأُصَلِّيَ بِهِمْ، وَوَدِدْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَّكَ تَأْتِينِي فَتُصَلِّيَ فِي بَيْتِي فَأَتَّخِذَهُ مُصَلًّى، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سَأَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ عِتْبَانُ: فَغَدَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” [صحيح البخاري: 425]
«عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آگیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انہیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جاسکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ دوسرے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے»
(27) نبوی زبان سے صدیق رضی اللہ عنہ کی امامت کا اعلان:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں۔
“لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَأُذِّنَ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ” [صحيح البخاري: 664]
«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الموت میں جب نماز کا وقت آیا اور اذان دی گئی تو فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں»
(28) “اگر تم مجھے نہ پاؤ تو ابو بکر کے پاس آنا”:
سیدنا جبیر بن مطعم فرماتے ہیں کہ:
“أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ: أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ كَأَنَّهَا تَقُولُ الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ”
«ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ پھر آنا، اس نے کہا: اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں تو؟ گویا وہ وفات کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم مجھے نہ پا سکو تو ابوبکر کے پاس چلی آنا»
(29) “رفاقت کی آخری ساعت”:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:
”أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَ أَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، قَالَ إِسْمَاعِيلُ: يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ، فَقَامَ عُمَرُ، يَقُولُ: وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَقَالَ عُمَرُ: وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍ فَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ” [صحيح البخاري: 3667]
«نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس وقت مقام سنح میں تھے، آپ کی خبر سن کر عمر رضی اللہ عنہ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات نہیں ہوئی، عائشہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے، جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں، اتنے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو عمر رضی اللہ عنہ خاموش بیٹھ گئے»
(30) “قبر میں ساتھ صداقت و وفا کی روشن مثال”
سیدہ عائشہ والا بیان کرتی ہیں:
رَأَيْتُ كَأَنَّ ثَلَاثَةَ أَقْمَارٍ سَقَطَتْ فِي حُجْرَتِي، فَسَأَلْتُ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنْ تَصْدُقُ رُؤْيَاكِ يُدْفَنُ فِي بَيْتِكِ خَيْرُ أَهْلِ الْأَرْضِ ثَلَاثَةٌ، فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ دُفِنَ ، قَالَ لِي أَبُو بَكْرٍ: يَا عَائِشَةُ، هَذَا خَيْرُ أَقْمَارِكِ، وَهُوَ أَحَدُهَا. [المستدرك للحاكم: 4400، وسنده صحيح]
میں نے خواب دیکھا کہ تین چاند میرے حجرے میں گرے ہیں۔ میں نے سیدنا ابو بکر دنیا سے تعبیر پوچھی، تو فرمایا: عائشہ! اگر آپ کا خواب سچا ہے، تو ( اس کی تعبیر یہ ہے کہ ) آپ کے گھر میں کائنات کے تین بہترین لوگ دفن ہوں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ فوت ہوئے اور دفن ہوئے، تو مجھے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عائشہ! آپ کے چاندوں میں سے سب سے بہترین چاند یہ ہیں۔ (عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ) ان چاندوں میں سے ایک ابوبکر رضی اللہ عنہ خود بھی تھے۔“
تحریر: افضل ظہیر جمالی