صرف نقاب مسئلے کا حل نہیں!
مسلم معاشروں کا حال بھی بڑا عجیب ہے. ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین مکمل سر سے پیر تک نقاب میں نکلیں، بے حجابی اور لباس میں کسی قسم کی ناشائستگی کا ارتکاب ان سے نہ ہو لیکن ہمارے مرد حضرات خود اپنے لیے شریعت کے قواعد و ضوابط بھول جاتے ہیں. آپ عموماً مسلم بستیوں کا جائزہ لیں. خواتین خواہ نقاب میں بازاروں میں ٹہل رہی ہوں یا چست قسم کے فیشنیبل ملبوسات زیب تن کیے ہوں ہمارے مردوں کی ایک بڑی تعداد از اول تا آخر ان عورتوں کے سراپے کا جائزہ لیتے ہوئے بلکہ بسا اوقات ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے ہوئے نظر آ جائے گی. افسوس یہ ہے کہ نگاہوں کی اس بیہودگی اور بے باکی میں صرف نوجوان طبقہ ملوث نہیں ہے بلکہ ادھیڑ اور معمر قسم کے افراد بھی اس غلاظت میں لتھڑے ہوئے مل جائیں گے. معاف کیجیے گا معاشرے کی اصلاح کے لیے صرف خواتین کا پردہ کر لینا کافی نہیں ہے، مردوں کا اپنی نگاہوں کو نیچے رکھنا اور اپنے بے قابو ہوتے جذبات کو قابو رکھنا بھی بے حد ضروری ہے.. مردوں کے اس غیر مناسب رویہ نے اگر ایک طرف بے حیا قسم کی عورتوں کو مزید بے حیا اور ڈھیٹ بنا دیا ہے تو دوسری طرف عفت مآب اور با حجاب خواتین اور نوخیز لڑکیوں کا راستہ چلنا دوبھر کر دیا ہے، انہیں گھر سے باہر نکلتے ہوئے ایک عجیب قسم کی بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا ہے.
ایک اسلامی معاشرہ اپنی عفت و پاکدامنی کے لیے جانا جاتا ہے، جہاں عزتیں محفوظ ہوتی ہیں، جہاں نظروں کی حفاظت ہوتی ہے، جہاں جنسی خواہشات کی تکمیل صرف جائز راستوں سے ہوتی ہے. اسلامی معاشرہ جہاں ایک طرف خواتین کے مکمل حجاب، حیا اور غیرت کے لیے جانا جاتا ہے وہیں مردوں کی شرافت، غیرت اور تقویٰ کے لیے بھی جانا جاتا ہے. ہم مرد حضرات ایک طرفہ طور پر شریعت کے احکام کو صرف اپنی خواتین پر لاگو کرنے کی کوشش کریں اور خود مادر پدر آزاد ہو جائیں تو اس سے نہ شریعت کے تقاضے پورے ہوں گے نہ ہی ایک صالح معاشرے کی تشکیل ممکن ہے.
سورہ نور کی ان آیات کو دیکھیے جنہیں ہم واضح طور پر ایک ایسی گائیڈ لائن کہہ سکتے ہیں جن پر عمل درآمد کر کے معاشرے کو زناکاری اور فحاشی سے مکمل طور پر پاک کیا جا سکتا ہے. اس سلسلہ آیات میں اللہ تعالٰی نے مومنہ عورتوں کو پردہ کرنے اور اپنے مواضع زینت کو چھپانے کا حکم بعد میں دیا ہے، اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومن مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور پھر ذ ٰلِكَ أَزۡكَىٰ لَهُمۡۚ کہہ کر یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی تزکیہ و تربیت کا کام اس چیز کے بغیر ممکن نہیں. پھر بعینہ یہی حکم مومنہ عورتوں کو بھی دیا گیا کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو پست رکھیں اور اپنی آبرو کی حفاظت کریں. پھر مزید ان کی عفت و عصمت کے تحفظ کے لیے انہیں اپنی زینت کو چھپانے اور محرم غیر محرم کا فرق ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی.
معاشرے کے بگاڑ کے بنیادی اسباب میں سے آج یہ بھی ہے کہ ہم شرعی احکام کو یکطرفہ طور پر صرف اپنی خواتین پر لاگو کرنا چاہتے ہیں، خواہ مرد حضرات خود بے حیائی اور بے غیرتی کے عمیق دلدل میں دھنسے ہوں. مسلم خواتین کی بے حجابی تو ہمیں غیظ و غضب میں مبتلا کرتی ہے مگر مردانِ قوم کی ذہنی و جنسی بے راہ روی کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں ہوتیں . یاد رکھیں مسائل کا حل شریعت کے پورے ڈھانچے پر عمل کرنے میں ہے.. دین کے ٹکڑے کر کے ہم اسے اپنی خواہشات کے مطابق اپنائیں گے تو نہ دنیا میں سرخرو ہوں گے نہ آخرت میں کامیاب ہوں گے.
تحریر : عبدالغفار سلفی حفظہ اللہ، بنارس