واقعہ کربلا بیان کرنے والے نام نہاد ذاکرین و واعظین کے بقول سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ 55 یا 60 سال کی عمر میں شہید ہوئے، اب سوال یہ ہے کہ “کیا سیدنا حسین کی پوری زندگی میں صرف 10 دن ہی اہمیت کے حامل ہیں؟ (نعوذ باللہ)، کیا سیدنا حسین نے اپنی 55 یا 60 سالہ زندگی میں صرف یہی کارنامہ سرانجام دیا؟ (نعوذ باللہ)، کیا سیدنا حسین نے اپنی پوری زندگی میں کفار کے خلاف کبھی جہاد نہیں کیا؟ (نعوذ باللہ)” ، اگر ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو “سیدنا حسین کی باقی زندگی کیوں بیان نہیں کی جاتی؟
اگر کوئی بھی سلیم الفطرت و ذی شعور انسان غور و تحقیق کرے تو اس سوال کا جواب بالکل آسان ہے اور وہ یہ کہ “سیدنا حسین رضی اللّٰہ عنہ کی اکثر و بیشتر زندگی خلفاء راشدین کے دور میں گزری بالخصوص زندگی کے 20 سال سیدنا معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت میں گزرے، یعنی سیدنا حسین نے سیدنا ابوبکر ، سیدنا عمر ، سیدنا عثمان ، سیدنا علی اور سیدنا معاویہ کی اطاعت و فرمانبرداری میں پوری زندگی گزاری اور اسی اطاعت و فرمانبرداری میں سیدنا حسین نے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کی زیر قیادت کفار کے خلاف جہاد بھی کیا جسکی تفصیل آپکو تاریخ کی مستند کتابوں (تاریخ ابن کثیر، تاریخ طبری، تاریخ ابن خلدون، تاریخ ابن اثیر، طبقات ابن سعد) میں مل جائیگی۔
بالخصوص امیر المومنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے دور میں ہونے والی ایشیا، یورپ اور افریقہ کی فتوحات میں سیدنا حسن و سیدنا حسین (رضی اللّٰہ عنہم) کا شریک ہو کر شجاعت کی داستانیں رقم کرنا اور سیدنا معاویہ کی سربراہی و سپاہ سالاری میں قبرص اور قسطنطنیہ کو فتح کرنے والے سب سے پہلے لشکروں میں شامل ہوکر (صحیح بخاری حدیث 2800، 2924، 6283 کے مطابق) جنّت کو خود پر واجب کرنا قابل رشک کارنامے ہیں ، اسکے علاوہ امامِ مظلوم سیدنا عثمان کی المناک ترین شہادت سے قبل سیدنا حسن و سیدنا حسین کا انکے گھر کے باہر پہرہ دیتے ہوئے زخمی ہوجانا بھی انکی شجاعت اور صحابہ سے محبت کی دلیل ہے ۔ اسی لیے ذاکرین یہ سب حقائق عوام کے سامنے بیان نہیں کرتے۔
اور تو اور یہ حقیقت بھی عوام سے چھپائی جاتی ہے کہ سیدنا حسین کی تیسری بیوی سیدہ لیلیٰ بنت ابی مرہ سیدنا معاویہ کی بھانجی ہیں اور چوتھی بیوی سیدہ امِ اسحاق عشرہ مبشرہ میں شامل جلیل القدر صحابی سیدنا طلحہ بن عبیداللّٰہ کی بیٹی ہیں، اسی طرح سیدنا معاویہ کی بہو امِ محمد سیدنا علی المرتضیٰ کے بھائی سیدنا جعفر طیار کی پوتی ہیں۔ یہ تمام تر تفصیلات اوپر ذکر کردہ مستند کُتبِ تواریخ (تاریخ کی مستند کتابوں) میں سن 26 ہجری سے سن 49 ہجری تک کے واقعات کے عنوان کے تحت، سیدنا عثمان و سیدنا معاویہ کی خلافت کے تذکروں کے تحت اور سیدنا حسین کے تذکرے کے باب (chapters) میں موجود ہیں۔
حاصلِ کلام : ایران و بھارت سے تربیت یافتہ اور غمِ حسین کی آڑ میں لاکھوں کروڑوں کمانے والے نام نہاد ذاکرین و واعظین صرف واقعہ کربلا (جسکی زیادہ تر تفصیل جھوٹی روایات و منگھڑت کہانیوں پر مبنی ہے) اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ یہ باور کرایا جائے کہ ہمارے بزرگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے (نعوذ باللہ)، یوں مسلمان اپنے اصل ہیروز (صحابہ کرام) کو وِلن سمجھنے لگیں اور ان سے بدظن ہوکر اُنہیں طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں (جیسا کہ ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے) اور بلآخر مسلمان دین سے بیزار ہوکر الحاد کی طرف راغب ہونا شروع ہوجائیں (اسکی بھی کئی مثالیں معاشرے میں موجود ہیں) کیونکہ دین کو لکھنے، سمجھانے اور باحفاظت ہم تک پہنچانے والے صحابہ کرام ہی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام حقائق جس سے سیدنا حسین کی اصل فضیلت و مقام ثابت ہوتا ہے، سیدنا حسین کا تمام صحابہ بالخصوص سیدنا عثمان و سیدنا معاویہ سے محبت اور فرمانبرداری کرنا ثابت ہوتا ہے، اسی طرح تمام صحابہ کا سیدنا حسین سے محبت و شفقت کرنا ثابت ہوتا ہے اور ان سب (صحابہ و اہلبیت) کا آپس میں ایک دوسرے کے ہاں رشتے کرنا ثابت ہوتا ہے، (یہ تمام باتیں) نام نہاد ذاکرین و واعظین اسی لیے چھپاتے ہیں کہ عوام فرقہ واریت، ملک دشمنی اور الحاد چھوڑ کر صحابہ و اہلبیت کی طرح آپس میں متحد، کفار ممالک کے خلاف سیسہ پلائی دیوار اور دین پر عمل پیرا نہ ہوجائے جیسا کہ قرآن (سورۃ الفتح آیت 29) نے صحابہ و اہلبیت کا وصف بیان کیا ہے!
ان حقائق و دلائل کے باوجود اگر ذاکرین و واعظین کے پروپیگنڈے کا شکار کوئی منچلا یہ کہے کہ “چونکہ سیدنا حسین کی شہادت المناک واقعہ ہے اس لیے اسی پر زور دیا جاتا ہے” تو اُسکی جناب میں عرض ہے کہ پھر سیدنا علی المرتضی کی زندگی کیوں نہیں بیان کی جاتی ہے؟، کیا اُنکی شہادت المناک نہیں؟، کیا سیدنا حسین اپنے والد سے افضل ہیں؟، قطع نظر اسکے کہ سیدنا علی کی بھی پوری زندگی جو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر اور سیدنا عثمان کی خلافت میں گزری اُسے بیان کرنے کے بجائے صرف جمل و صفین پر زور دیا جاتا ہے (وہ بھی ضعیف و منگھڑت روایات کے ذریعے، یا صحیح احادیث میں تحریف کرکے اور ائمہ محدثین کے بیان کردہ فہم و تفصیل کو چھوڑ کر اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتے ہوۓ)۔

ہدایت دینے والے اور دلوں کو پھیرنے والے اللّٰہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

اظہر محمدی (اظہر بن انور)