سوال (1978)

سوتیلی ماں کی بہن کے ساتھ ہمارا رشتہ کیا ہوگا؟ یعنی کیا وہ بھی ہماری خالہ لگے گی
یا پھر اس سے نکاح ہوسکتا ہے؟

جواب

باب کی منکوحہ یا موطؤہ کو سوتیلی ماں کہنا خالص عجمی اور غیر شرعی اصطلاح ہے، قرآن و حدیث میں اس کو منکوحةالاب کے ساتھ تعبیر کیاگیا ہے، اور منکوحہ الاب کی بہن کو سوتیلی خالہ کہنا اور بھی غلط ہے، سوتیلی خالہ شرعا عقلا عرفا ام (والدہ) یعنی: اپنی ماں کی سوتیلی بہن ہی ہوسکتی ہے۔
قرآن نے محرمات کے سلسلے میں جن عورتوں کو بیان کیا ہے، ان میں دوسرا نمبر پر امہات کو رکھا ہے، ام کی معنی والدہ ہے اور اس سے مراد وہ عورت ہے جو مرد کی اصل ہو اور مرد کی فرع اور جزو خواہ بلا واسطہ ہو جیسے: ماں یا بلواسطہ جیسے:دادی اور نانی مطلب یہ ہوا کہ وہ عورتیں جو تمہاری اصول ہیں اور جن کے تم جزو اور فروع ہو تم پر حرام ہیں۔
چھٹے نمبر پر خالات کو بیان کیا گیا ہے اور اس سے مراد ام کی بہن ہے، خواہ وہ حقیقی ہو تو سگی خالہ یا اخیافی ہو تو اخیافی خالہ ہوگی یا سوتیلی ہو تو سوتیلی ہوگی۔
منکوحۃ الاب سے نکاح کرنے “لاتنکحو امانکح ابائکم” کی رو سے حرام ہے اور یہ امھاتکم کے اندر داخل نہیں ہے، اس لیے کہ اس پر ام کا مفہوم صادق نہیں ہے، باپ کی منکوحہ بیٹے کی اپنی اصل نہیں ہے، بلاواسطہ اور نہ بواسطہ پس منکوحہ الاب کی بہن بھی خالاتکم میں داخل نہیں ہوگی، کیوں کہ وہ مرد کی اپنی اصل(ماں دادی نانی) کی بہن نہیں ہے، لہذا اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا، اور اس کو خالاتکم میں داخل سمجھ کر محرمات میں شمار کرنا بلاشبہ غلط ہوگا۔
قرآن نے تین قسم کی عورتوں کو حرام کیا ہے۔
1۔نسبیۃ
2۔صھریۃ
3۔رضاعیہ
اور منکوحۃ الاب کی بہن تو محرمات نسبیہ میں داخل ہے، نہ صھریہ میں اور نہ رضاعیہ میں،عرض یہ کہ حرمت کے ان تینوں سببوں میں یہاں کوئی سبب متحقق نہیں ہے پس اس سے نکاح کے جواز میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذَلِكُم.
[النساء:24]
اس آیت کی رو سے بلاشبہ اس سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
اپنے باپ کی منکوحہ کی پہلے شوہر سے پیدا شدہ لڑکی جو اسکی ایک فرع اور جزو ہے، نکاح کرنا بلاشبہ جائز ہے تو اس کی بہن سے جو نہ تو اس کی فرع اور جز ہےاور نہ اصل ہے، بلکہ اس کی اصل کی فرع ہے بدرجہ اولی نکاح کرنا جائز ہوگا۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ