’’سوشل میڈیا، موقع کی مناسبت اور علمی وقار‘‘

اسلام کا مزاج یہ ہے کہ گفتگو موقع محل کے مطابق ہو۔
رسول اللہ ﷺ کا اسلوبِ دعوت ہمیں سکھاتا ہے کہ ہر بات کا ایک وقت، ایک انداز اور ایک سامع ہوتا ہے۔ آپ ﷺ کی دعوت کبھی نرم لہجے میں، کبھی حکیمانہ مثالوں کے ساتھ، کبھی خاموش رہ کر اور کبھی سوال کے ذریعے ہوتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل: 125)

“اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ، اور ان سے بحث کرو ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔”
موقع کی مناسبت پر سیرت کی مثال دینی ہو تو
صلح حدیبیہ: جب صحابہؓ کو غم تھا کہ عمرہ رُک گیا، تو اللہ نے اسے “فتح مبین” قرار دیا (الفتح: 1)۔
اس موقع پر حکمت، تدبر اور دور اندیشی کے ساتھ معاملہ کیا گیا۔
جنگ احد کے بعد: جب کفار خوشیاں منا رہے تھے، نبی ﷺ نے صبر، رجوع اور تربیت کے ذریعے صحابہ کو سنبھالا۔
لیکن اس کے باوجود سوشل میڈیا پر علمی گفتگو کے چند اصول ہیں جو ہمیں جاننا چاہیے
لیکن بدقسمتی سے آج علمی موضوعات کو عام فہم بنانے کے بہانے، مناظرانہ انداز اور تحقیر آمیز لہجہ اپنا لیا گیا ہے۔ جو انداز درسگاہوں اور علمی حلقوں کا ہونا چاہیے، وہ فیسبک اور یوٹیوب پر تماشے بن گیا ہے۔
یہ طرزِ عمل کئی خطرات رکھتا ہے:
1. علم کی بے توقیری۔
2. عوام میں اہلِ علم کی تضحیک۔
3. علمی مسائل کو ذاتی جھگڑے سمجھنا۔
4. دین کو تماشہ سمجھنا۔
5. فتنے اور فتنہ پروری کا دروازہ کھلنا۔
لہذا سنت کا مزاج مدنظر رکھا جائے جس میں وقار، عدل اور ادب مقدم رکھا جاتا یے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَلاَ الْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ”(سنن أبی داود: 4843)

اللہ کے جلال کا تقاضا ہے کہ مسلمان بوڑھے، قرآن کے حامل اور عادل حاکم کی عزت کی جائے۔”
عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

لو سكت من لا يعلم لقلّ الخلاف”

اگر وہ لوگ خاموش ہو جائیں جو علم نہیں رکھتے تو اختلاف کم ہو جائے۔”

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
1. علمی گفتگو میں وقار، ادب اور دینی غیرت کو مقدم رکھیں۔
2. سوشل میڈیا پر بات کرتے وقت سیاق و سباق کا خیال رکھیں۔
3. علماء کے ساتھ حسنِ ظن اور ادب کا رویہ رکھیں۔
4. فتنہ انگیزی، طنز، اور مناظرانہ اسلوب سے بچیں۔
شریعت ہمیں موقع کی مناسبت سے حکمت کے ساتھ بات کرنے کی تعلیم دیتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر مناظرانہ اور عوامی انداز اپنانا علم کی بے توقیری اور علماء کی توہین بن سکتا ہے۔”
آئیے! سوشل میڈیا کو اصلاح اور فہم دین کا ذریعہ بنائیں، فتنہ اور انتشار کا میدان نہیں۔
موقع کی مناسبت سے بات ہونی چاہیے بظاہر درست ہے، لیکن موقع کی مناسبت کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایک معمولی علمی اختلاف کو مناظرانہ جنگ بنا دیا جائے۔
ایک وضاحت برائے اہلِ فہم مناظرے نہیں، فہمِ دین مطلوب ہے.
الحمدللہ! میں نے گزشتہ دنوں صرف ایک گزارش کی تھی کہ بھینس کی قربانی کا مسئلہ ایک علمی مسئلہ ضرور ہے، لیکن یہ اتنا اہم اور نازک نہیں کہ ہم اس پر سوشل میڈیا پر مسلسل مناظرے اور دوسرے علماء کی تحقیر شروع کر دیں۔
کیا واقعی امت کو اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہی مسئلہ ہے؟
میری پوسٹ کا مقصد کسی پر تنقید نہیں تھا، بلکہ یہ کہنا تھا کہ:
آئیے اہم موضوعات، دینی بیداری، اصلاح نفس، قربانی کی روح، اور سنت ابراہیمی کے پیغام پر بات کریں، نہ کہ صرف بھینس کے جواز و عدم جواز پر تکرار کرتے رہیں۔”
موقع کی مناسبت سے بات ہونی چاہیے — بالکل درست!
لیکن سوال یہ ہے کہ:
کیا موقع یہ ہے کہ عوام کو عمل اور قربانی کے جذبے کی طرف بلانے کے بجائے ہم ایک جزوی فقہی مسئلہ کو عوامی مناظرے کا عنوان بنائیں؟
کیا موقع یہ ہے کہ ہم علمی گفتگو کو ذاتیات پر لے آئیں؟
کیا موقع یہ ہے کہ اختلاف کو فتنہ بنا کر پیش کیا جائے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا” (البقرہ: 83)

ترجمہ: “اور لوگوں سے نرمی اور حسنِ کلام سے بات کرو۔”
علمی اختلاف، ادبی ماحول میں ہونا چاہیے۔
اختلاف رائے صحابہ کرام میں بھی تھا، ائمہ مجتہدین میں بھی رہا۔ مگر ان کے ہاں احترام تھا، فہم تھا، عاجزی تھی
ہمیں بھی یہی رویہ اپنانا ہے۔
ہم سب دین کے خادم ہیں، مناظر نہیں۔ علمی بات علمی انداز میں کریں، جذبات اور ذاتیات سے نہیں۔”
میں اپنی ہر بات سے رجوع کے لیے بھی تیار ہوں اگر کسی کو ٹھیس پہنچی ہو۔ لیکن میری گزارش بس اتنی ہے:
ہم اصل دعوت، روحِ قربانی، اور سنت ابراہیمی کی طرف لوٹ آئیں – نہ کہ سوشل میڈیا کو علمی رزمگاہ بنا دیں۔”
اللہ ہم سب کو حکمت، فہم، اور حسنِ کلام کی توفیق دے۔ آمین

شاہ فيض الابرار

یہ بھی پڑھیں:مزارات اور فوت شدگان کو مدد کے لیے پکارنا