سوشل میڈیائی مفتی حضرات کچھ احتیاط سے کام لیں

مفتی طارق مسعود صاحب. سوشل میڈیائی مفتی حضرات کچھ احتیاط سے کام لیں

فتاوی اور حکم لگانے میں عجلت کو قطعا پسند نہیں کیا گیا اور یہ کیا بات ہوئی کہ کسی کا ایک ویڈیو کلپ آیا تو اس پر فتاوی کی بوچھاڑ کر دی جائے کم از کم صاحب ویڈیو سے رابطہ کر کے ان سے وضاحت تو طلب کی جائے کہ
حضرت آپ نے جو کہا آپ اس گفتگو سے وہی مراد لے رہے ہیں جو سمجھا جا رہا ہے یا یہ سبقت لسانی ہے یا تعبیر مناسب نہیں مل سکی الفاظ کا چناؤ اچھا نہیں کیا جا سکا ۔۔ وغیرہ وغیرہ
مفتی طارق مسعود صاحب مسلک دیو بند کا سوشل میڈیا پر معروف نام ہے مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ بعض اوقات ضرورت سے زیادہ بول دیتے ہیں وہ بھی بول دیتے ہیں جس کا علم انہیں نہیں ہوتا اور کہنے کا انداز بھی عالمانہ نہیں ہوتا مسلکی تعصب بھی بعض اوقات ضرورت سے زیادہ نظر آتا ہے لیکن حالیہ ویڈیو پر میں نے ان کی اصل ویڈیو اور وضاحتی بیان دونوں سنے ہیں۔
خدارا مفتی طارق مسعود صاحب توہین رسالت توہین قرآن توہین صحابہ جیسے کسی بھی معاملہ میں ملوث نہیں ہیں۔
انہوں نے خود صراحت سے کہہ دیا ہے کہ
“میں معذرت طلب کرتا ہوں کہ میری تعبیر مناسب نہیں تھی۔”
جب ایک شخص نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا تو اب اس حوالے سے مزید کوئی بات نہیں ہونی چاہیے فی الواقع یہ مفتی طارق مسعود صاحب کی اچھائی ہے کہ انہوں نے غلطی علانیہ کی تھی تو غلطی کا ازالہ بھی بلا تاخیر علانیہ ہی کر دیا۔ ہاں یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اس معذرت کے بعد چونکہ چنانچہ کا استعمال مناسب نہ تھا۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی شخص علم کے اس پہلو پر بات کرے جہاں اس کی مہارت نہیں ہو اور تیاری بھی پوری نہ کی ہو تو ایسا ممکن ہے اور یہی کچھ ہوا ہے۔
مفتی طارق مسعود صاحب مجھے علم نہیں میری یہ پوسٹ آپ تک پہنچے گی یا نہیں لیکن آپ کو برادرانہ مشورہ ہے کہ
جن علوم پر آپ کی گرفت مضبوط نہیں اس پر بات کرنے سے اجتناب کریں
جن موضوعات پر تیاری اچھی نہیں اس پر بات نہ کریں
اور آخری بات ہر بات عوام سے کرنے والی نہیں ہوتی۔ کچھ باتیں خواص تک محدود رکھی جائیں تو بہتر ہے۔
قرآن مجید کے رسم ، کتابت اور املاء کا شمار علوم قران کے بنیادی علوم میں ہوتا ہے۔ رسم قرآن ، کتابت قرآن ، اعراب قرآن وغیرہ پر اسلاف رحمہم اللہ کی ایک سے زائد کتب موجود ہیں اور کچھ نہیں تو علوم قران پر معروف بنیادی کتب کا ہی مطالعہ کر لیا جائے۔
مختصر اس بات کو سمجھ لیں
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور عربی زبان کے قواعد انسانوں کے وضع کیے ہوئے ہیں اب یہ نا ممکن ہے کہ کلام اللہ کو انسانوں کے وضعی قواعد کی روشنی میں پرکھا جائے بلکہ یہ توہین قرآن ہے لیکن اس حوالے سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ
قران مجید اللہ کا کلام ہے اس کی فصاحت و بلاغت و معنوی حسن کا اندازہ انسانوں کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط کی روشنی میں نہیں کیا جا سکتا اور جہاں تک ظاہری طور پر عربی زبان کے قواعد کے بر خلاف جہاں بھی قرآنی تعبیر ہے وہاں کوئی ایسی بات کی جا رہی ہے جو عام اسلوب میں نہیں کی جا سکتی یا عام اسلوب میں تاکید یا فصاحت و بلاغت کو اجاگر کرنا ہی نا ممکن ہے۔ یہ اسلوب ہم اپنی روز مرہ کی گفتگو میں بھی استعمال کرتے ہیں اور اچھی طرح جان لیں کہ قرآن مجید کا اسلوب تقریری ہے تحریری نہیں لہذا جب بھی اسے تحریری اسلوب کے قواعد کی روشنی میں پرکھنے کی غلطی کی جائے گی تو ایسے ہی معاملات سامنے آئیں گے جیسا کہ مفتی طارق مسعود صاحب کے ساتھ ہوا ہے۔
عربی زبان میں جملہ اسمیہ کا آغاز مبتدا سے ہوتا ہے اور مبتدا ہمیشہ معرفہ ہوتا ہے لیکن قرآن مجید میں اس کے بر خلاف جملوں کا آغاز نکرہ سے ہوا ہے جیسا کہ سوری النور کا پہلا جملہ ہے
سورۃ انزلنھا وفرضنھا ۔۔۔
مکمل۔قران اللہ کا نازل کردہ ہے مکمل۔قران کے احکام اللہ کی جانب سے فرض ہیں لیکن سورۃ النور کا ابتدائیہ بطور خاص ایسا ہے جس نے سب کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے۔
کیونکہ اس سورت میں ایسے مضامین ہیں جو قرآن مجید کی کسی سورت میں بیان نہیں ہوئے و قس علی ھذا۔
عربی زبان کے قواعد فہم قرآن کے حوالے سے ایک ممد و معاون علم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ قرآنی تعبیر کے حوالے سے کوئی فیصل بن سکیں۔ والعلم عند اللہ۔

شاہ فیض الابرار صدیقی

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر ذاکر نائیک کا دورہ پاکستان اور ہمارے رویے