’’سوشل میڈیا پر فسادات اور لوگوں کے طبقات‘‘
علامہ شوکانی رحمہ اللہ (١٢٥٠هـ) نے ’’البدر الطالع‘‘ میں اپنے شیخ علی بن قَاسم حَنش رحمہ اللہ (١٢١٩هـ) کا ایک قول نقل کیا ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ لوگوں کے تین طبقات ہیں: ’’پہلا طبقہ علماء کا ہے۔ یہ حق وباطل میں فرق کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ اس لیے جب ان کا کسی مسئلے میں اختلاف ہوتا ہے تو اس کی بنیاد پر کوئی فتنہ نہیں ہوتا کیونکہ فریقین کو معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کے پاس کیا دلیل ہے جس کی بنیاد پر وہ اختلاف کر رہا ہے۔
دوسرا طبقہ فطرت پسند عام اور سادہ لوگوں کا ہے۔ یہ حق پسند ہوتے ہیں، علماء پر کلی اعتماد کرتے ہیں۔
تیسرا طبقہ جو ان کے درمیان لوگوں کا ہے۔ یہ اَصل فتنے فساد کی جڑ ہوتے ہیں۔ نہ تو صحیح راستے سے علم حاصل کر کے اوپر علماء کے طبقے میں جانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی نچلے طبقے کے لوگوں میں شامل ہونا پسند کرتے ہیں۔ ان کی مصیبت یہ ہوتی ہے کہ جیسے ہی علماء کے طبقے سے کوئی ایسی بات سنتے ہیں جو ان کے عقیدے، فکر یا سوچ کے مخالف ہو تو ان کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں۔ اور ان کی پوری کوشش بھی یہ ہوتی ہے کہ نچلے طبقے کے عام لوگوں کو بھی کسی نہ کسی طرح علماء سے متنفر کر کے اُن میں تشویش پیدا کریں۔‘‘
تعلیق:
شیخ رحمہ اللہ کی یہ تقسیم کتنی عمدہ ونفیس ہے۔ آپ آج بھی سوشل میڈیا وغيرہ پر دیکھیں گے تو یہی تین طبقات نظر آئیں گے۔
پہلے؛ سنجیدہ علماء اور طلباء کہ جن کے اختلاف میں وقار اور متانت ہوگی۔ اپنا اختلاف سلیقے سے رکھیں گے، کبھی کسی گمراہ کے متعلق سختی بھی ہوگی تو اُس کی ہتک، بد تمیزی اور پروپیگنڈے سے بالکل خالی رویہ ہوگا۔
دوسرے؛ سنجیدہ طلباء، عام لوگ اور دنیاوی علوم اور شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے سادہ مزاج، فطرت پسند اہلِ عقل جو ہمیشہ اپنے پیش آمدہ مسائل میں اَحسن طریقے سے علماء کے سامنے رکھ کر اُن کی راہ نمائی کو کافی سمجھتے ہیں، کہیں علماء کا اختلاف ہو جائے تو اُن کا کردار ہمیشہ مصلحانہ اور خیر خواہی والا ہوتا ہے۔ جس عالم کی بات دلیل کی بنیاد پر سمجھ آئے اختیار کر لیتے ہیں، علماء کے مابین فیصل اور ثالث بننے کی کوشش نہیں کرتے۔ کیوں کہ انہیں اپنی علمی حیثیت کا ادراک ہوتا ہے۔ مثبت انداز فکر رکھتے ہیں، منفیت سے گریز کرتے ہیں۔ کوئی بات خلافِ طبع لگے یا سمجھ سے باہر نظر آئے تب بھی جلد بازی اور پروپیگنڈہ کرنے کی بجائے خوش اسلوبی سے حل کی طرف جاتے ہیں۔
تیسرے؛ شریر ، غیر سنجیدہ اور خواہشات پرست عناصر، یہ ہمیشہ کسی نہ کسی فتنے فساد کی تاک میں رہتے ہیں۔ اِن میں بعض پڑھے لکھے حتی کہ ڈاکٹر اور انجینئر بھی شامل ہیں اور مدارس کے بھگوڑے، اسٹوڈیوز مالکان، چند کتب کا مطالعہ کرنے والے مفکرین وغيرہ بھی۔ یہ نہ تو عالم ہیں، نہ طالب علم ہیں بلکہ ان کا اول تا آخر کام ہی یہ ہے کہ اہلِ علم کے اختلاف میں شر پسندانہ رویہ اختیار کریں، پروپیگنڈے کو ہوا دیں۔ ہر جدید مسئلے میں ٹانگ اڑائیں، اہلِ علم کی شاذ آراء کا تمسخر اڑائیں، غلط فہمیوں پر مبنی بیانات پر مزے لیں۔ تحریروں کو کاپی کر کے، آڈیوز لیک کر کے گویا ہر طرح سے اپنے دماغ کے شریر کیڑے کو تسکین پہنچائیں۔
لہذا، اگر آپ پرسکون رہنا چاہتے ہیں اور ان فسادات میں مثبت اور خیر کے کاموں میں مشغولیت کے خواہاں ہیں تو سوشل میڈیا پر موجود لوگوں کو ان تین طبقات میں تقسیم کر لیں۔ پہلے دو طبقات میں رہنے کی کوشش کریں، اور انہیں سے تعلق رکھیں۔ تیسرے طبقے سے دور بھی رہیں اور ان کی کوئی پرواہ نہ کریں۔ جن کی زبان اور ہاتھوں سے صحیح العقیدہ کبار علماء محفوظ نہیں بھلا آپ ان سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ والله المستعان.
مزید پڑھیں: حرمِ مکی میں نماز کی فضیلت
حافظ محمد طاھر