“آن لائن مبلغین” ۔ یوتھ داعی ۔ایلیٹ کلاس اور انگریزی تعلیم یافتہ طبقے میں دعوت کا میدان
دینی طبقے کو درپیش چیلنج ۔ حقیقی ضرورت اور ردعمل کے رویے۔ مسئلے کا ادراک اور حل کیا ہے؟
دین میں دلچسپی ۔ سوشل میڈیا سے جڑی دنیا ۔ ایک نسل کی آبیاری اور ہمارے رویے۔۔

نائن الیون کے بعد شروع ہونیوالی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ارض پاک پر گہرے اثرات مرتب کئے ۔ یہاں پر بے پناہ فکری ، معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور ان کے اثرات ابھی تک جاری ہیں۔ ہمیں اس تحریر میں دینی، دعوتی حوالے سے ایک صورتحال ، اس کے معاشرتی اثرات اور اب درپیش چیلنج کا جائزہ لینا ہے۔ ارض پاک میں ایک منفرد معاشرتی اور سماجی تبدیلی پرائیوٹ ہاوسنگ سوسائٹیز کا قیام بھی تھا ۔ اس دور میں سب سے زیادہ سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں لگا اور بڑے بڑے ہاوسنگ پراجیکٹس لگائے گئے ۔ ہمارا معاشرہ اس دور سے پہلے ایسا نہیں تھا ۔ تمام علاقے ہی عوامی تھے ۔ یعنی ہر طبقے کی رسائی والے علاقے۔ ہر محلے میں کچھ امیر گھرانے ہوتے ۔ کچھ غریب ۔ مسجد ، خوشی غمی میں اکھٹے ہوتے ۔ ایک دوسرے کے بارے آگاہی ہوتی ۔ بچے مساجد میں قرآن پڑھنے جاتے یا کم سے کم محلے کی مساجد سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوتے۔

علماء سے خطبہ جمعہ، کسی درس ، جلسے وغیرہ ۔ کہیں نہ کہیں تعلق و سامنا ہو ہی جاتا۔ لیکن اس دور سے شروع ہونیوالی اس بڑی معاشرتی تبدیلی کے آج اثرات بہت گہرے ہو چکے ہیں۔ اب تقریبا ہر بڑا شہر دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ ایک مخصوص ایلیٹ کا علاقہ اور دیگر عوامی علاقے۔ یعنی پرائیوٹ ہاوسنگ سوسائٹیز جہاں بڑے شہروں میں شائد لاکھوں گھرانے آباد ہیں۔ سب ہی خوشحال گھرانے۔ لیکن یہ سب کے لئے کھلے علاقے نہیں ہیں۔ یہاں کی دنیا الگ ہے۔ کلچر اور رہن سہن الگ۔ اب ہوا یہ کہ معاشرے کے دیگر شعبوں مثلا تاجر ، سکولز وغیرہ نے وہاں نئے حالات کے مطابق خود کو تبدیل کیا۔ بڑے بڑے مالز بنائے گئے۔ انگلش میڈیم سکول، مغربی سکولز کی برانچز سینما، کلب، ہوٹلز اور دیگر ہر وہ ضرورت جو کہ اس ایلیٹ طبقے کو درکار تھی۔ لیکن یہاں ایک اہم ترین شعبے کو ان سوسائٹیز کے مالکان کی جانب سے بھی نظر انداز کیا گیا اور دینی طبقہ بھی اس کا بروقت احساس ہی نہ کر سکا وہ تھا دینی تعلیم و تربیت کا اہتمام۔

یہاں سوسائٹی کی مساجد تو بنیں لیکن ان کا مقصد دعوت۔ دینی تعلیمات کا فروغ، تبلیغ نہیں تھا بلکہ صرف نماز کی ایک سہولت دینا۔ خطبات جمعہ کے لئے بھی باقاعدہ اہتمام کیا گیا کہ ایسے خطباء دستیاب ہوں جو کہ بس ایک ڈیوٹی نبھائیں ۔ کوئی دعوتی اور اصلاحی، تربیتی نیٹ ورک بنانے کی کوشش نہ کریں۔ یعنی ان علاقوں کے رہائشی ایک طرح سے دینی طبقے سے کٹ کر رہ گئے ۔ کسی دعوتی نیٹ ورک کی رسائی نہ تھی۔

اگر ہم غور کریں کہ دو ہزار چار پانچ میں شروع ہونیوالی اس صورتحال کے اب ہمیں نتائج درپیش ہیں۔ وہاں پیدا ہونیوالی اور پروان چڑھنے والی ایک پوری نسل جوان ہو چکی ہے ۔ ان نوجوانوں نے مغربی تعلیم حاصل کی۔ ایلیٹ طرز زندگی میں پلے بڑھے۔ مغربی سکالرز سے متاثر ہیں۔ ان کا لائف سٹائل انہیں دستیاب سہولیات سب مغربی سٹائل کی ہیں۔ انہوں نے زندگی کے کسی بھی حصے میں دینی سرگرمیوں میں شرکت ہی نہیں کی۔ دوسری جانب اسی دور میں انٹرنیٹ عام ہوا۔ دو ہزار سات آٹھ میں آن لائن ڈیجیٹل دنیا کی پذیرائی ہوئی۔

یہ طبقہ چونکہ خوشحال تھا اس لئے انہیں یہ سب وسائل دستیاب تھے۔ انہوں نے اپنی معلومات الیکٹرانک میڈیا اورآ ن لائن لینا شروع کیں۔ تفریح، دینی اور معلومات  اپنے مسائل کا حل اور رہنمائی ۔ کیونکہ انہیں گراونڈ پر تو کچھ دستیاب نہیں تھا۔ ان پرائیوٹ ہاوسنگ اسکیموں اور ایلیٹ علاقوں میں مدارس اور اچھے سکالرز کا تو اہتمام تک نہیں تھا۔ انہوں نے تعلیم مغربی یونیورسٹیز سے منسلک سکولز و کالجز سے حاصل کی اور زیادہ تر مغربی ممالک سےپڑھ کر بھی آئے۔ بدقسمتی کہہ لیں دینی طبقے کی جانب سے شائد ابھی تک اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا گیا ہے۔
یہ ایک بڑا طبقہ تھا ۔ وسائل رکھنے والا ۔ آپ اسے ایک بڑی مارکیٹ کہہ سکتے ہیں ۔ وہ جب میڈیا پر دیکھتے تو انہیں جاوید غامدی اور ڈاکٹر عامر لیاقت جیسے سکالرز ملتے۔ آن لائن جاتے تو بھی کچھ ایسے ہی سکالرز کی بھرمار۔ الحمداللہ اسلام میں اتنی قوت ضرور موجود ہے کہ وہ زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر آپ کو جھنجوڑتا ضرور ہے۔ اب یہ نسل جب جوان ہوئی تو ان کےوالدین کی خواہش تھی کچھ خود بھی مائل ہوئے کہ یہ مغربی طرز زندگی نہ اپنائیں۔

کلبوں میں نشہ نہ کریں ۔ کسی فحش و عریاں کلچر کے عادی نہ بنیں جو کہ مغرب میں ہے۔ اب یہاں سے ایک کشمکش شروع ہوئی کہ ان نوجوانوں میں سے بہت دین کی معلومات لینے لگے۔ پاکستان میں تو اس طبقے کے لئے علماء و سکالرز انتہائی محدود تھے۔ جسے دینی علوم و معلومات کی خواہش ہوئی اس نے خود ہی سیکھا ۔کچھ نے مغربی اسلامک سکالرز کو سنا۔ کسی نے آن لائن ویب سائٹس سے معلومات لیں اور دوستوں کے ساتھ ڈسکشن کرنے لگے۔ یہ دو ہزار نو دس کی بات ہے کہ جب اسلام آباد میں چند ایسے نوجوان جو برطانوی دعوتی نیٹ ورک سے منسلک تھے۔ وہیں سے حمزہ زورٹس اور عبدالرحمن گرین وغیرہ کو مدعو کرکے اس ایلیٹ طبقے کے لئے سیمینارز کرائے۔ یہ صرف ایک کاوش نہیں تھی۔ چند نے اپنے بچوں کو الہدی اور النور کے حوالے کیا ۔ کچھ تبلیغی جماعت سے متاثر ہوئے۔ یعنی کئی ایسے سکالرز ، کچھ مستند اور کچھ شہرت کے متلاشی سامنے آئے جنہوں نے اس طبقے کو متاثر کرنا شروع کیا ۔
لیکن اس طبقے کا ایک مسئلہ تھا کہ یہ مغربی طرز فکر میں تربیت یافتہ تھا ۔ ہمارے ہاں عموما روایتی تبلیغ ، دینی تعلیم و تربیت عقیدت و احترام کے تحت کی جاتی ہے ۔یہ غیر مسلم نہ تھے لیکن شائد بنیادی معلومات سے بھی عاری تھے۔  شوق تھا ، مخلص تھے ۔ بدلنا چاہتے تھے۔ البتہ یہ طبقہ سوال اٹھانے والا تھا ۔ دوسرا یہ واقعی خوشحال گھرانوں سے تھے ۔ آپ اس کو جس مرضی رنگ میں دیکھیں لیکن آپ ایک ایسے بچے کو جس نے زندگی آسائشوں میں گزاری ہو اس کو مدارس کی سادگی ، محدود وسائل کا عادی کیسے بنا سکتے ہیں ؟ آپ یہ مطالبہ کر تو سکتے ہیں کہ انہیں دین سیکھنا ہے تو خود روایتی مدارس میں علماء و شیوخ کے پاس آئیں ۔ لیکن حقیقت میں یہ کتنا ممکن ہے ؟ آپ سب بھی اندازہ کر سکتے ہیں ؟ یقین مانیں یہ کوئی مقابلہ نہیں۔ آپ کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ دینی تعلیم پڑھنی ہے تو اسی ماحول میں آو جو ہمیں دستیاب ہے۔ اسی دوری کے باعث ہوا یہ کہ انہیں تو وہی سکالر زیادہ متاثر کرے گا جس کا انداز اسے اپنے طرز زندگی جیسا لگے گا۔ اس کی مثالیں سمجھ آئیں گیں اور وہ ان مسائل پر بات کرے گا جو اس کو اپنی حقیقی زندگی میں درپیش ہوں گے۔

یہ حقیقت ہے کہ اس طبقے کے مسائل ہی الگ ہیں۔ ان کو آن لائن ایسے سکالرز متاثر کرنے لگے جو کہ ان کے مطابق گفتگو کرتے ۔ دراصل یہ طبقہ چونکہ وسائل کی کمی کا شکار نہ تھا ۔ اس کو توہمات ، عقیدت ، تقلید سے متاثر نہیں کیا جا سکتا تھا۔ یہ تو سوال کرتے تھے اور اپنے مسائل کا حل چاہتے تھے ۔ اس مجبوری کا فائدہ اٹھایا گیا۔ کچھ مخلص ، دینی جذبہ رکھنے والے، اصلاح کے داعی سامنے آئے تو وہیں مارکیٹ کو دیکھتے ہوئے چند ایسے بھی جن کا مقصد شہرت کا حصول اور مقاصد پورے کرنا تھا۔
آج دینی طبقے کو اسی چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک بڑی تعداد  ایک پوری نسل ہے جو کہ اب جوان ہو چکی ہے۔ آپ پوری نسل کو ہی نہ تو چھوڑ سکتے ہیں۔ ان کی نیت پر شک نہیں کر سکتے اور نہ ہی سب کو ایک ہی پلڑے میں رکھ سکتے ہیں ۔ یہ آپ کے ہی خاندانوں سے ہیں اور آپ کے ہی معاشرے کے  غیر مسلم نہیں بلکہ مسلمان ہیں ۔ اب بس ان کے مطابق دعوت دین کے اسلوب اپنانے کی بھی ضرورت ہے ۔ اور یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ۔ خاص کر اگر آپ کے پاس قرآن و سنت کی مستند تعلیمات ہیں اور آپ انہیں اصل اسلام سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ اسکا بہترین تجربہ مغربی ممالک میں ہو بھی چکا جہاں نوجوان نسل صحیح العقیدہ سکالرز سے جڑی ہے۔ بڑی سادہ سی بات ہے ہم مختلف قسم کے ماحول میں اسی کے اصول و ضوابط کو اپناتے ہیں ۔ مثلا حج کے موقعے پر کوئی مہنگا ترین لباس نہیں پہنتے صرف احرام پہنا جاتا ہے۔ قربانی کے موقعے پر رقم خیرات نہیں کرتے بلکہ جانور قربان کرتے ہیں۔

 محمد عاصم حفیظ