“سوشل میڈیا پر قربانی کی نمائش ایک افسوسناک رویہ”

اسلام ایک ایسا دین ہے جو اخلاص، عاجزی، اور نیت کی پاکیزگی پر زور دیتا ہے۔ ہر عمل، خواہ وہ عبادت ہو یا دنیاوی کام، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہونا چاہیے، نہ کہ دکھاوے، ریاکاری یا شہرت کے لیے۔ عیدالاضحیٰ کی قربانی بھی ایسی ہی عظیم عبادت ہے، جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور تقویٰ کی علامت ہے، لیکن افسوس کہ آج سوشل میڈیا کے دور میں اس عبادت کا مقصد بدلتا جا رہا ہے۔

قربانی: مقصد اور روح:

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں:

“لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ”(الحج: 37)

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کو نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کے خون، بلکہ اسے تمہارے دلوں کا تقویٰ پہنچتا ہے۔
اس آیتِ مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا اصل مقصد تقویٰ ہے، نہ کہ جانور کی جسامت، قیمت، نسل، یا تعداد کا پرچار۔

سوشل میڈیا پر دکھاوا: ایک ریاکارانہ عمل:

آج کل لوگ قربانی کے جانوروں کی تصاویر، ویڈیوز، قیمتیں، نسلیں، وزن اور ان کی دیکھ بھال کی تفصیل فخریہ انداز میں سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں۔ بعض اوقات پورا قربانی کا عمل، یہاں تک کہ ذبح کا لمحہ بھی ویڈیو میں دکھایا جاتا ہے۔ اس پر عوام سے واہ واہ، داد و تحسین، اور لائکس و کمنٹس اور شیئرز حاصل کیے جاتے ہیں۔
یہ رویہ اخلاص کے منافی اور ریاکاری کی ایک شکل ہے۔

حضرتِ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

“إن أخوف ما أخاف عليكم الشرك الأصغر”

بلاشبہ مجھے تمہارے حق میں سب سے زیادہ ڈر شرک اصغر کا ہے۔

قالوا: وما الشرك الأصغر؟

صحابہ کرام نے عرض کیا: “اللہ کے رسول! شرک اصغر کیا ہے؟”

قال الرياء،
آپ ﷺ نے فرمایا: “ریاکاری”(مسند احمد)

ریاکاری ایک ایسا مرض ہے جو انسان کے نیک اعمال کو ضائع کر دیتا ہے اور اس کی آخرت برباد کر دیتا ہے، چاہے دنیا میں اسے کتنی ہی شہرت کیوں نہ مل جائے۔

سوشل میڈیا: دکھاوے کا میدان:

آج کے دور میں سوشل میڈیا عبادات کو دکھانے کا ایک نیا اسٹیج بن گیا ہے۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر لوگ جانور خریدنے کے بعد انہیں ایسے پیش کرتے ہیں جیسے وہ کوئی ٹرافی ہوں۔
“دس لاکھ کا بیل”
“ساڑھے چار من وزنی جانور”
“نایاب نسل کا بکرہ”
“سعودی نسل کا اونٹ”
“یہ دیکھیں ہماری قربانی کا قافلہ”
کیا یہ سب اخلاص کے ساتھ کی جانے والی قربانی ہے؟ کیا یہ سنتِ ابراہیمی کی روح ہے؟ نہیں! بلکہ یہ مال و دولت کی نمائش اور دوسروں پر فوقیت جتانے کی ایک دوڑ ہے۔

قربانی کی یہ دکھاوا زدہ ثقافت کئی منفی اثرات مرتب کر رہی ہے:
1. غرباء و مساکین کی دل آزاری: جو لوگ قربانی کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے، یا معمولی جانور خریدنے پر مجبور ہیں، ان کے دل دکھتے ہیں۔
2. حسد و بغض کو ہوا دینا: لوگ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مہنگے جانور خریدتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا پر سبقت لے جائیں۔
3. عبادت میں روحانیت کی کمی: جب نیت اخلاص کے بجائے شہرت ہو، تو عبادت محض رسم بن جاتی ہے۔

اخلاص کی جانب واپسی:
ہمیں چاہیے کہ:
قربانی کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں، نہ کہ لوگوں کی واہ واہ کے لیے۔
قربانی کی تفصیلات کو سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے گریز کریں۔
اگر قربانی کے بارے میں کچھ شیئر کرنا ہے تو، لوگوں کو اس کے فضائل، حکمتیں، اور محتاجوں تک گوشت پہنچانے کی ترغیب دیں۔
نیت کو بار بار درست کرتے رہیں، کیونکہ شیطان دکھاوے میں ڈالنے کے لیے ہر وقت کمین گاہ میں ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا پر قربانی کی نمائش محض ایک دکھاوے کی عبادت بن کر رہ گئی ہے، جو نہ صرف اخلاص کو زائل کرتی ہے بلکہ دین کی اصل روح سے بھی دور لے جاتی ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ ہم عبادات کو عبادت ہی رہنے دیں، نہ کہ دنیاوی شہرت کا ذریعہ بنائیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اخلاص، تقویٰ، اور عاجزی کے ساتھ عبادات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور باالخصوص ریاکاری سے محفوظ رکھے۔
آمین یارب العالمـــین

 یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:گیارہ لاکھ فالوورز، لیکن جنازے پر چند لوگ