سوال (4729)

جو شخص سودا کرکے مکر جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب

اسلامی شریعت میں جو شخص کوئی سودا طے کرنے کے بعد اس سے بلا عذر شرعی یا کسی معقول وجہ کے مکر جائے، یعنی وعدہ خلافی کرے یا معاہدے کو توڑ دے، اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے، کیونکہ یہ بدعہدی اور خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے: نبی ﷺ نے فرمایا:

آیة المنافقِ ثلاثٌ: إذا حدّثَ کذَبَ، وإذا وعدَ أخلف، وإذا اؤتمنَ خانَ”

’’منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وعدہ خلافی منافق کی علامت ہے، اور سودا طے کرنا بھی ایک طرح کا وعدہ ہوتا ہے، خاص کر اگر فریقین نے رضامندی سے طے کر لیا ہو۔
سودا طے ہو جانے کے بعد اگر دونوں فریق راضی ہو چکے ہوں اور معاملہ مکمل ہو گیا ہو (یعنی ایجاب و قبول مکمل ہو چکا ہو)، تو پھر اس سے رجوع کرنا شرعاً حرام ہے، الا یہ کہ دونوں کی باہمی رضامندی سے سودا منسوخ کیا جائے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

المسلمون على شروطهم، إلا شرطاً أحلّ حراماً أو حرّم حلالاً”

’’مسلمان اپنے آپس کے معاہدوں پر قائم رہتے ہیں، سوائے اس شرط کے جو حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دے۔‘‘
اگر کسی نے صرف وعدہ کیا ہو لیکن ابھی سودا مکمل نہ ہوا ہو (یعنی ایجاب و قبول اور قبضہ وغیرہ نہ ہوا ہو)، تو شرعاً ایسا وعدہ اخلاقی طور پر لازم ہے، لیکن وہ قانوناً لازم نہیں۔ یعنی اس وعدہ کو توڑنے پر گناہ تو ہو سکتا ہے، مگر سودا لازمی نہیں ہوا۔امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

“الوعد بالبيع لا يلزم، لكنه يكره الإخلاف فيه من غير عذر”

یعنی وعدہ شرعاً لازم نہیں ہوتا، لیکن بلا عذر وعدہ خلافی مکروہ (ناپسندیدہ) ہے۔ (شرح النووي على مسلم)
اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر کسی دوسرے کو دھوکہ دینے یا اس کا نقصان کرنے کے لیے سودا طے کر کے انکار کیا، تو یہ صریح خیانت اور گناہ کبیرہ ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:

من غشنا فليس منا

’’جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘(صحیح مسلم)
یعنی شرعی طور پر تو یہ عمل موجب سزا نہیں ہے البتہ قانونی طور پر اگر معاہدہ شروط و عہد کے پابند ہوتے ہیں، جب شروط طے ہوگئی ہے تو مسلمان اپنی شروط مکمل کرتا ہے، سودا کرکے مکر جائے یا وعدہ خلافی کرنا اسلام کے محاسن کے خلاف ہے، اخلاق حسنہ میں سے نہیں ہے، اس شخص کو تنبیہ کرنی چاہیے، اگر وہ باز نہ آئے تو لوگوں کو بتانا چاہیے کہ اس شخص سے سودا نہ کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ