سوال (5617)
میری آٹے کی ایک مل ہے، جس کا بجلی کا بل پانچ لاکھ ہر ماہ میں ادا کرتا ہوں، مجھے ایک شخص نے کہا کہ میں تمھیں اپنے خرچے پر سولر پلیٹیں لگوا دیتا ہوں، تم مجھے ہر ماہ اڑھائی لاکھ بل ادا کرنا۔ اور جب تمھارے پاس پیسے جمع ہو جائیں تو سولر پلیٹیں بے شک مجھ سے خرید لینا، میں تمھیں بیچ دوں گا، کیا یہ معاملہ شریعت کی رو سے جائز ہے؟
جواب
بیان کردہ صورت حال تو بالکل درست لگ رہی ہے، کیونکہ وہ اپنی سولر پلیٹس کی سروس دے کر اس سے اڑھائی لاکھ وصول کر رہا ہے.
اسی طرح سولر پلیٹس کی خریداری بھی اس نے لازم قرار نہیں دی، بلکہ اس کو اختیار دیا ہے کہ آپ چاہیں تو سولر سسٹم خرید لیں.واللہ اعلم.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
سولر پلیٹیں کس قیمت پر خریدنے کا کہہ رہا؟
سولر پلیٹوں کی دیکھ بھال کون کرے گا؟
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ
جی بظاہر تو جائز لگ رہا ہے لیکن کچھ چیزیں کلیئر کروانا ضروری ہے۔
1. بل میں بل کے علاؤہ کچھ اور شامل نہ ہو۔
2. پلیٹوں کی ملکیت اور نفع نقصان مالک کی ہی ذمہ ہو البتہ مینٹیننس کسی کے بھی ذمہ لگائی جا سکتی ہے۔
3. پلیٹوں کے پیسے ہونے پہ کرایہ دار کے لیے خریدنا اور مالک کے لیے بیچنا لازم نہ ہو بلکہ اس وقت باہم رضامندی سے ہو اور قیمت بھی باہم رضامندی سے اس وقت طے ہو۔
یہ کلیئر کرنا اس لیے ضروری سمجھا کیونکہ اسلامی بینک والے بیع اجارہ یا بیع متناقصہ کے تحت گاڑی یا مکان بیچتے ہیں۔ گاڑی میں وہ کرایہ کا نام لے کر اصل سود والی قیمت کہہ رہے ہوتے ہیں اور اسکی دلیل یہ ہوتی ہے کہ آخر پہ وہ گاڑی جو کرایہ پہ دی ہوتی ہے وہ اسکو فری میں گفٹ کر دیتے ہیں کیونکہ کرایہ اصل میں سود سمیت قیمت ہوتی ہے اسی طرح مکان میں بھی اسکے یونٹ بنا کر کرایہ لیتے ہیں جس میں دو بیع ہو جاتی ہیں۔ واللہ اعلم
فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ
سب سے پہلے یہ واضح ہونا چاہیے کہ یہ اجارہ کا معاملہ ہے یا بیع التقسیط کا معاملہ ہے۔ اس کے بعد اس پر کچھ واضح کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ایسی بیع جس میں اجارہ اور تقسیط کو ملا دیا جائے بسا اوقات کچھ کیفیات میں مشکل پیش آتی ہے۔ میزان بنک کی بیع التقسیط میں ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ عملا اجارہ پر عمل کر رہے ہیں لیکن اصل عقد بیع التقسیط پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے اجارہ منتھی بالتملیک پر فقہاء کے مابین شدید اختلاف ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
سائل: یہ اجارہ نہیں بلکہ بیع التقسیط ہی ہے۔ یعنی جو شخص سولر پلیٹیں لگوا کر دے گا، اس کے ساتھ باقاعدہ پیسے طے ہوں گے، جو ہر ماہ اڑھائی لاکھ کی قسط کے ساتھ اترتے رہیں گے اور آخر کار قسطوں کی تکمیل پر سولر پلیٹیں استعمال کنندہ کی ملکیت میں آ جائیں گی۔
کیا ایسی صورت میں شرعا کوئی قباحت تو نہیں؟ بینوا و توجروا۔
جواب: اگر یہ بیع التقسیط ہے تو بظاہر اس میں کوئی حرج نظر نہیں آرہا۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
سوال میں تو خیر ایسا کچھ شُبہ نہیں ہے، سوال سے تو بظاہر یہ لگتا ہے کہ جو ڈھائی لاکھ روپے لے گا وہ کرائے کی قیمت میں لے گا، اور جب تک کرایہ وہ دیتا رہے گا، جب تک اس کے پاس اصل رقم نہیں ہو جاتی تو یہ تو بینک کا طریقہ بن رہا ہے، جس کو ہمیشہ سے علمائے کرام ناجائز کہتے چلے آئے ہیں کہ: یہ چیز آپ کو دلوا دی ہے، اب آپ کرایہ بھرتے رہیں، جب آپ اس کے پیسے دے دیں گے، تو وہ چیز آپ کی ہو جائے گی۔ بظاہر تو سوال یہی ہے۔
اور سوال میں پوچھا ہے کہ کیفیت جائز دکھائی نہیں دے رہی، یا تو وضاحت کر دی جائے، ایک ٹھوس طریقے سے سائل سے پوچھ لیا جائے کہ: یہ جو کرائے کی قیمت میں لے رہا ہے، کیا یہ اس طرح ہے کہ وہ قسطیں اُتر رہی ہیں اس کی؟ اگر وہ کہتا ہے “ہاں جی، قسطوں میں پیسے وصول ہو رہے ہیں”، تو ٹھیک ہے جی، پھر مگر یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اس پر لیٹ فیس کتنی مہنگی ہوتی ہے،
جو اس قدر وہ بڑی قسط لے رہا ہے؟
ممکن ہے کہ سامنے والا کہہ دے: جی میں راضی ہوں۔ ہاں جی، پھر ٹھیک ہے، آپ راضی ہیں، مگر اس کی وضاحت ضرور ہونی چاہیے کہ: یہ کرائے کی شکل میں درحقیقت قسطیں وصول کی جا رہی ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: سائل نے وضاحت کر دی ہے کہ یہ کرایہ نہیں بلکہ قسطیں ہی ہیں؟
جواب: پھر مناسب ہے، گویا وہ چیز اس نے اس کو فروخت کردی ہے، اس کو کرایہ کا نام نہ دے، پھر جو بھی قسطیں طے ہو جائیں، وہ دے دیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سوال بدل گیا، پہلی مرتبہ والا سوال دیکھیں اور اب کا دیکھیں، اس میں اب وہ قرض اتارے گا، یعنی سولر دوسرا لگوا کر دے گا اور یہ مالک بن کر وہ خرچ کی گئی رقم اتارے گا،
اب اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ان شاء اللہ
فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ