سوال

میرا سونے اور چاندی کی خریداری کے متعلق ایک سوال ہے، میں مارکیٹ میں سونا یا چاندی خریداری کرنے جاتا ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے کہ آپ ابھی پیمنٹ کر دیں سونا یا چاندی آپ کو 10 دن بعد ملے گا مطلب یہ کہ بکنگ پر ملے گا ، یعنی کہ میں اسے اسی وقت پیمنٹ کر دوں گا لیکن مجھے میری جو چیز ہے وہ 10 دن بعد ملے گی۔

کیا یہ شرعی اعتبار سے صحیح ہے؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

سونا اور چاندی ربوی اشیاء میں سے ہیں جن کے بارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ… مِثْلًا بِمِثْلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ، يَدًا بِيَدٍ”. [صحیح مسلم: 1587]

’’سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے مثل بہ مثل، برابر برابر اور نقد بہ نقد ہونا ضروری ہے‘‘۔

اس لیے اگر آپ مارکیٹ میں پیسے دیں اور آپ سے کہا جائے کہ “سونا 10 دن بعد ملے گا”، تو یہ درست نہیں ہے۔ اس صورت میں نہ یہ صحیح خرید و فروخت ہے اور نہ ہی “بیع صرف” کے اصول پر پوری اترتی ہے، لہذا یہ سودی معاملہ ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

اب اس صورت میں آپ کے لیے شرعا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ یا تو بیع نقد ہی کریں، یعنی  پیسے دیکر فوراً سونا قبضہ میں لیں۔

یا پھر آرڈر پر کام کروائیں مثال کے طور پر جیولر سے کہیں کہ آپ میرے لیے فلاں ڈیزائن کا سونا تیار کریں، اور جب تیار ہو جائے تو میں خریدوں گا۔ اس صورت میں بیع کا عقد تب ہوگا جب چیز تیار ہو کر آپ کے حوالے کی جائے گی، پہلے پیسے دینا لازم نہیں۔ ہاں! اگر جیولر آپ سے کچھ رقم بطور “ضمانت/ودیعت” ایڈوانس لیتا ہے تو وہ قابلِ برداشت ہے، لیکن وہ عقدِ بیع شمار نہیں ہوگا بلکہ صرف وعدہ ہوگا۔ اور  زیور کی حقیقی قیمت اسی دن طے ہوگی جس دن سارے پیسے دینے ہوں گے ۔  مزید یہ کہ اگرکسی وجہ سے مشتری نہیں خریدتا تو بائع کے لیے اس کے پیسے واپس کرنا ضروری ہوں گے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ