۱۔ جب رات گہری ہو جائے اور لوگ اپنے اپنے ٹھکانوں میں پہنچ جائیں تو اس وقت بلاضرورت گھروں سے باہر نکلنے کو اسلامی شریعت نے ناپسند کیا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’لوگوں کے سو جانے کے بعد باہر نکلنا کم کر دیا کرو، کیونکہ اس وقت اللہ تعالیٰ اپنی بعض مخلوقات زمین میں پھیلاتا ہے۔‘‘
[سلسہ احادیث صحیحہ 267/1]
رات آرام کے لیے ہوتی ہے نہ کہ بازاروں اور گلیوں میں بے مقصد گھومنے کے لیے جبکہ ہم ’’مہذب انسانوں ‘‘ کے معمولات اس کے برعکس دیکھتے ہیں۔
ہم نے اس آوارہ گردی کو ’’شخصی آزادی‘‘ کا خوبصورت عنوان دیا ہوا ہے اور اسے تہذیب و ثقافت کی ایک علامت سمجھتے ہیں۔
ہماری سماجی رسومات اور شادی بیاہ کی تقریبات کا نقطہ عروج رات کی وہ ساعتیں ہوتی ہیں کہ جب شب زندہ دار اپنی نیند کا زیادہ حصہ پورا کر چکے ہوتے ہیں۔
اسوۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں رات گئے تک گپ بازی کو ایک ناپسندیدہ کام قرار دیا گیا ہے.لیکن ہم ہیں کہ ہمارا دن ہی رات کے وقت شروع ہوتا ہے اور جو شام کو اپنے کام کاج سے فارغ ہوکر سو جانے کا عادی ہو اسکو دنیاوی اُمور سے بے خبر اور ماحول سے ناآشنا سمجھ کر دیہاتی قرار دیا جاتا ہے۔
جبکہ
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات پسند نہیں فرماتے تھے کہ نماز عشاء سے پہلے سویا جائے اور نماز عشاء کے بعد (بلا ضرورت) گفتگو کی جائے۔‘‘
(صحیح بخاری،حدیث: ۵۶۸۔)
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نمازِ عشاء کے بعد تو صرف مسافر اور نمازی ہی باتیں کر سکتے ہیں۔‘‘
(سلسلہ احادیث صحیحہ،جلد۱،حدیث: ۴۵۰۔)
مسافر اور نمازی کو بھی ایک حد تک گفتگو کی اجازت ہے۔
کوئی اس کا مطلب یہ نہ سمجھے کہ نماز پڑھ کر اب گپ بازی کی سہولت مل گئی۔
اس لئے ہمیں چاہئیے کہ ہم رات میں دیر تک بے مقصد اور بلا سبب جاگنے اور گپ بازی کرنے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پسند و ناپسند کو ترجیح دینے کا جذبہ پیدا کریں.
اویس قرنی