مجھے اچھے سے یاد ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے ابا جان کبھی کبھار نانا جان رات سونے سے پہلے ہمیں قصص الانبیاء اور معروف دینی واقعات سنایا کرتے تھے رحمهما اللّٰہ….!
اور یہ رواج صرف ہمارے گھر تک محدود نہیں تھا بلکہ ان دنوں میں ایسا تقریباً بیشتر فیملی ہاؤسز میں ہوا کرتا تھا جو اسلامی معاشرے کی بنیادی معرفت کی علامت ہیں اور یہ خیر القرون اسلاف کے دور سے چلا آرہا ہے لیکن اب ان کی جگہ موبائلز، ٹیلی ویژن،جھوٹے افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل رومانوی ناولز نے لے لی اور نتائج اسکے سب کے سامنے ہیں..!
ہر گھر میں یہ رواج ہونا چاہیے کہ وہاں سارے گھر والے اکٹھے ہوکر سونے سے پہلے پندرہ بیس منٹ کی دینی مجلس لگائیں اور ان میں سے کوئی ایک کسی مستند کتاب کو پڑھے باقی سماعت کریں جہاں کہیں حاشیہ دینے کی حاجت پیش ہو وہ بھی بتادیں..!
کتاب کے انتخاب میں کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جس کتاب میں قرآن و احادیث میں اخلاقیات اور دین کے بنیادی مسائل اور چیدہ چیدہ حلال و حرام کی تمیز پر مبنی مواد ہو بچوں کو دینی اختلافات و مشاجرات اور ہارڈ سبجیکٹس سے دور رکھا جائے حتی الامکان متفقہ دینی اقدار اور بنیادی چیزوں کو ہی بیان کیا جائے اس کے کئی سارے فوائد ہیں مثلاً
١- گھر میں دینی ماحول اور دین سے محبت اجاگر ہوگی جسکا ثمرہ ایک اسلامی معاشرے کیلئے انتہائی ضروری ہے..!
٢- گھر کے افراد پر اسکا براہ راست اثر ہوگا جسکے نتیجے میں باھمی حسن سلوک،والدین کیساتھ حسن سلوک اور خوشگواری دیکھنے کو ملے گی…!
٣- اولاد کی تربیت کرنے میں کافی حد تک آسانی مل سکتی ہے جس میں بچہ خود اتنا منکسر ہوگا کہ آپکو تربیت کیلئے مار پٹائی کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئیگی بچہ آپکی بتلائی ہوئی باتوں اور اشاروں سے خود ہی سمجھ جائیگا..!
٤- اس پر فتن اور گئے گزرے دور میں قرآن و حدیث سے نظریاتی وابستگی ہوگی جس سے دین کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت لازم ہوگی..!
٥- آپکو موریلٹی اور دین کی بیسک چیزیں سکھانے کیلئے بچوں کو کسی ادارے میں بھیجنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے گی..!
٦- اولاد کی والدین سے دینی اور نسبی دونوں طور پر محبت بڑھے گی ایک بچہ اپنے والدین کو صرف باپ کی حیثیت سے ہی نہیں دیکھے گا بلکہ ایک معلم کی حیثیت سے اسکے وقار اور اکرام کا از حد خیال رکھے گا..!
٧- علم النفسیات کے مطابق پری کنڈیشنگ میں بچوں کی جو پروگرامنگ ہوگی وہ اسکی بقیہ زندگی پر آخری درجہ تک اثرات مرتب کرتی ہے. یہ کتنا ہی اچھا ہوگا کہ آپکے بچے پری کنڈیشنگ میں اسلامیات اور بنیادی آداب و اخلاق سے آراستہ ہونگے جسکا فائدہ انکے ساتھ ساتھ آپکو اور پورے معاشرے کو ملنے والا ہے..!
٨- کسی معلم اور بڑے کی بات کو توجہ دے کے سننا اور اسکے آداب کا بالخصوص مجلس کے آداب کا اسلوب بچوں میں نقش ہوجائیگا جسکا ہمارے معاشرے میں بہت فقدان ہے..!
٩- بڑوں کی توقیر اور چھوٹوں کے حقوق کا خیال رکھنا مزید برآں مثبت نتائج ملنا انتہا درجے تک آسان ہوجاتے ہیں..!
١٠- بچوں میں ضد،مقابلہ بازی،احساس کمتری اور معاشرے کی طرف سے پہنچنے والے دیگر منفی اثرات جو بچوں کے اذھان کو کورا کر کے رکھ دیتے ہیں، ان سے نجات پانا اور اور خود اعتمادی جیسے کئی ثمرات با آسانی مل سکتے ہیں..!
١١- جب والدین خود تعلیم اور اخلاقیات سکھائیں گے تو وہ اپنے آپ کو عمل سے دوری اور دینی اقدار سے سستی برتنے کا کیسے مرتکب ہوسکتے ہیں جس سے بچوں کا اپنے والدین کو دیکھ کر مزید تربیت کے حوالہ سے مثبت نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اکثر بچوں کو کہ کر سمجھانے سے کر کے سمجھانے میں ہی بہتری دیکھی ہے…!
١٢- بچوں کیساتھ ساتھ والدین کی اچھی مصروفیت بن جائیگی جس سے دیگر لایعنی ایکٹویٹیز میں مشغولیت بہت کم ہوجائیگی جسکا ہمارے معاشرے میں بہت بڑا المیہ ہے..!
١٣- بچوں میں وقت کی پابندی،تحمل اور فرق شناسی جیسی اقدار شروع ہی سے آسکتی ہیں..!
١٤- جب دینی تربیت کی کلاس ہوگی تو اس میں لازمی پہلو ہے کہ محاسبہ اور اسکی فیڈ بیک بھی ہوگی جس میں بچوں کیساتھ ساتھ بڑے بھی شامل ہونگے..!
بلکہ میرا تو یہ کہنا ہے کہ بچوں کو مڈل کلاس تک کی تعلیم سکولز کی بجائے خود گھر میں دینی چاہیے جس میں اردو انگلش جیسی بنیادی زبانوں کی پہچان،ریاضی کی بنیادی چیزیں اور انکو پڑھنے لکھنے کو سکھانا ہی کافی ہوتا ہے اور یہ آج کے دور میں بہت آسان ہے ہمارے ہاں لوگ زیادہ تر پڑھے لکھے ہیں پہلے وقتوں میں لوگوں کے پاس اتنی پڑھائی نہیں ہوتی تھی جیسا کہ آج کل بعض بیک ورڈ علاقوں میں بھی ہے لیکن جو پڑھے لکھے گھرانے ہیں انکے پاس یہ عذر نہیں ہے،اسکے بیشمار فائدے ہیں مثلاً:
١- بچہ آلودہ معاشرے کی منفی چیزوں سے اپنے صاف اور خالی ذھن کو متعفن نہیں کریگا جو کہ بچوں کے شروع ہی سے بری عادات کا سبب بنتی ہیں.
٢- لگا تار کئی گھنٹے پڑھاتے رہنا یہ بھی بچوں کو تعلیم ایک ذمہ داری اور بوجھ کے طور پر دکھاتا ہے جبکہ تھوڑی تھوڑی کرکے تعلیم دینے میں بچے کی علم و آگاہی سے محبت بڑھتی ہے.!
٣- پھر اس سے دیگر غیر ضروری خرچے بھی کم ہونگے جیسا کہ یونیفارم،امتحانات کی مد میں فیسز،پرائیویٹ اداروں کی فیسز،بچوں کیلے پک اینڈ ڈراپ کے خرچے،اور دیگر کتابوں اور اسکے لوازمات کے خرچے وغیرہ
٤- بچوں میں نمبرز لینے کو ہی اولین ترجیح بنانا اور اسی کے سبب بچوں کی فطری صلاحیتوں کی عدم معرفت جو کہ بچوں کو خالصتاً مادہ پرستی کے زوم میں لے جاتا ہے، گھر میں اس سے نجات بھی مل جائیگی.!
فن لینڈ اور ناروے کے تعلیمی اداروں میں باقاعدہ بچوں کا امتحان لیکر انکو نمبر نہیں بتائے جاتے کیونکہ امتحان لینے کا بنیادی مقصد استاد کو بچے کے بارے جاننا ہوتا ہے نہ کہ بچے کو احساس کمتری میں مبتلا کرنا اور انکی تحقیر کرنا اسی طرح نمبرز کے چکر میں بچے خوشامدی بننے اور چیٹنگ کرنے کی غلط روش پر چلتے ہیں اور اس کے پس منظر سفارشی نظام اور رشوت خوری کی اپنی ایک داستان ہے…!
٥- پھر اسی طرح سکولز وغیرہ میں بچہ خود اعتمادی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جب گھر میں والدین پڑھائینگے تو بچہ آسانی سے سوال کرسکتا ہے اور اپنا کانفیڈینس بلڈ کر سکتا ہے اور دوسرے بچوں اور اساتذہ کی طرف سے بیعزتی کا خوف بھی نہ ہوگا.!
٦- سکولز میں خالصتاً مادہ پرستی اور سرمایہ داریت کے مزاج کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اسلامیات تو بطور نام ہوتی ہے اسی لئیے بچوں میں اسلامیات کو لیکر عدم توجہی بھی دیکھی گئی ہے چہ جائیکہ اسکا بچوں کی اخلاقیات اثر مرتب ہو جب گھر میں تعلیم دینگے تو دونوں چیزوں کو ساتھ ساتھ لیکر چلنا انتہائی آسان ہوگا
٧- گھر میں تعداد کم ہونے کی وجہ سے بچہ بھرپور توجہ دے گا جو کہ سکولز میں اکثر نہیں ہوتا بچہ خود بھی اچھے سے اسباق کو جان بھی نہیں سکتا چہ جائیکہ اسکو ترغیب دی جائے.!
٨- اسی طرح اساتذہ کے جسمانی اور ذھنی ٹارچر سے بھی نجات مل پائے گی جسکا بہت برا اثر پڑتا ہے بچوں کی نفسیات پر اور اسکی داستانیں بھی ہمیں سننے کو ملتی ہیں عزت و آبرو کی حفاظت الگ۔۔!
٩- ان سب پر کجا آجکل تعلیمی ادارے محض سرمایہ دارانہ نظام کے بزنس سینٹر بن کر رہ گئے ہیں جہاں سٹوڈنٹس کلائنٹ کے طور پر آتے ہیں اور اساتذہ امپلوئیڈ نوکر کے طور آتے ہیں یعنی اندازہ کریں جہاں پر ایک استاد کو ذرا سی غلطی پر بچوں کے سامنے ڈانٹ دیا جائے اور کبھی کبھار نوکری سے ہی فارغ کردیا جائے وہاں بچے کیسے اپنے اساتذہ کو معلم اور مربی کی نظر سے دیکھیں گے؟!
نوٹ:یہ صرف بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کچھ نشاندہی تھی بچیوں کی تعلیم اور مخلوط تعلیمی نظام کی شناعتیں فی الوقت ناقابل ذکر ہیں۔۔!
عمیر رمضان