سوال

ہمارا سوال یہ ہے کہ بینک آڈیٹر کی ملازمت کا کیا حکم ہے؟ اس کی آمدنی جائز ہے کہ ناجائز ہے؟

اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اسی بینک آڈیٹر نے اپنا مکان بناتے وقت کچھ رقم اپنی اور کچھ دوسرے سے ادھار لے کر (جس کی آمدنی جائز تھی) مکان بنایا۔ اور بعد میں اس کی رقم ادا کر دی۔

اب وہ ملک سے باہر چلا گیا اور اس مکان کو بیچ دیا۔ بیچنے کے بعد اس رقم سے اس نے اپنے بہن بھائیوں کو بطور تحفہ کچھ رقم دی۔۔ تو کیا ایسا تحفہ لینا جائز ہے، جو حرام آمدن سے دیا گیا ہو؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

بینک آڈیٹر کی ملازمت درست نہیں، کیونکہ موجودہ دور کے تقریباً تمام بینک سودی نظام پر مبنی ہیں، (خصوصا برصغیر پاک و ہند کے بینک) خواہ ان کا نام اسلامی ہی کیوں نہ ہو عملاً سودی معاملات سے پاک نہیں ہوتے۔ اس لیے سودی بینکوں میں بطور آڈیٹر کام یا کسی بھی قسم کی ملازمت کرنا ناجائز ہے، کیونکہ یہ سودی نظام میں عملی تعاون کے زمرے میں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“وَتَعَاوَنُـوْا عَلَى الْبِـرِّ وَالتَّقْوٰى ۖ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْـمِ وَالْعُدْوَانِ”. [المائدہ: 02]

’’نیکی اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو، اور گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کیساتھ تعاون نہ کرو‘‘۔

اسی بنا پر ایسی نوکری سے حاصل شدہ آمدنی بھی شرعاً ناجائز اور حرام ہے، چاہے وہ تنخواہ ہو یا بینک کی طرف سے دیگر مراعات ہوں۔

جہاں تک مکان بنانے کا معاملہ ہے، تو چونکہ اس میں اصل سرمایہ اسی ناجائز آمدنی سے لگا، اگرچہ کچھ رقم کسی حلال ذریعہ سے ادھار لے کر شامل کی گئی، لیکن بعد میں وہ رقم اسی آمدنی سے واپس بھی کی گئی،  اس طرح اس مکان کی بنیاد مجموعی طور پر حرام مال پر ہے۔ پھر اس مکان کو فروخت کیا گیا، تو فروخت کی رقم بھی اسی مال پر مبنی ہوئی۔

اب اگر ایسا شخص اس رقم سے اپنے بہن بھائیوں کو تحفے دیتا ہے تو شرعی طور پر ایسا تحفہ قبول نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ جو مال حرام طریقے سے حاصل کیا گیا ہو، وہ کسی دوسرے کے لیے بھی حلال نہیں ہوتا، سوائے اضطراری حالات اور مخصوص صورتوں کے، جیسے:

1.کوئی شخص بھوک یا فاقے سے مر رہا ہو، اور اس کے لیے کوئی اور حلال ذریعہ نہ ہو۔

2.کسی پر سود کا قرض چڑھا ہو، تو اس سود کو اتارنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔

3.کسی بیمار شخص کا فوری آپریشن درکار ہو، اگر علاج نہ ہوا تو جان کو خطرہ ہو، اس کے ساتھ تعاون کیا جاسکتا ہے۔

4.کوئی مظلوم ناجائز کیس میں قید ہو اور اس کی اس سے قانونی مدد کردی جائے۔

5.رفاہی کام جیسے نالی، لیٹرین یا عام استعمال کی جگہ بنوانا۔

ان جیسے حالات اور صورتوں کے علاوہ حرام مال کا استعمال جائز نہیں ہے۔  اس مال کو ہدیہ، تحفہ یا گفٹ جیسے خوبصورت نام دینا اسے حلال نہیں کرسکتا۔ سود، سود اور حرام حرام ہی رہتا ہے، چاہے اسے کسی اور نام سے پکارا جائے۔ لہٰذا مذکورہ شخص نے سودی اور حرام آمدنی سے مکان بنایا، اور اس کو فروخت کرکے اس رقم سے تحائف دیے، چونکہ یہ رقم حلال نہیں تھی اس لیے ایسے تحائف قبول کرنا درست اور جائز نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ