سوال

میں ایک کنسٹرکشن/سروس کمپنی میں 5 سے 10 فیصد شیئرز لینے کا ارادہ رکھتا ہوں جس کی بنیادی آمدنی حلال ذرائع سے ہے۔ تاہم، کمپنی کبھی کبھار سودی قرضے بھی استعمال کرتی ہے اور زیادہ منافع کے لیے بعض اوقات ایسے اقدامات بھی کرتی ہے جو شریعت کے اعتبار سے مشتبہ ہیں، جن پر میرا کوئی اختیار نہیں۔ میری ذمہ داری صرف ٹیکنیکل ایڈوائزری تک محدود ہوگی اور میں کمپنی کے مالی یا انویسٹمنٹ فیصلوں میں شامل نہیں ہوں گا۔

چونکہ میں پوری کمپنی میں شیئرز رکھوں گا، اس لیے میری آمدنی اور منافع صرف میری اپنی خدمات تک محدود نہیں ہوں گے بلکہ مجموعی طور پر کمپنی کی تمام آمدنی اور منافع میں سے میرا حصہ ہوگا، جن میں وہ شعبے بھی شامل ہوں گے جن میں میرا کوئی براہ راست کردار یا اختیار نہیں۔

اس حوالے سے وضاحت طلب ہے کہ کیا میرے لیے ان شیئرز اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو قبول کرنا شرعاً جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کیا اپنی آمدنی کے کسی حصے کو صاف (purify) کرنا ضروری ہے، اور اس کے لیے اندازہ لگانے کا کیا طریقہ مناسب ہوگا؟

مزید براہ کرم یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ آج کل زیادہ تر بڑی کمپنیوں اور اداروں میں کسی نہ کسی درجے میں غیر شرعی معاملات (جیسے سودی قرضے یا مشتبہ آمدنی) پائی جاتی ہے، جبکہ مکمل طور پر حلال اصولوں پر چلنے والی کمپنیاں بھی موجود ہیں لیکن وہ بہت کم اور عام طور پر چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہیں۔ بڑی کمپنیوں میں اس قسم کے معاملات کا پایا جانا زیادہ عام ہے۔

ایسی صورتحال میں اگر اقلیتی شیئرز ہولڈنگ بھی ناجائز قرار دی جائے تو عملی طور پر بڑی کمپنیوں میں شراکت داری یا ایڈوائزری رول میں حصہ لینا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے، جبکہ بہت سے مستند علماء اور عالمی شرعی بورڈز اس صورت میں “تزکیہ” (یعنی مشتبہ یا حرام آمدنی کا حصہ خیرات کرنا) کی شرط کے ساتھ اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہو اور شریک کو حرام معاملات میں اختیار یا دخل نہ ہو۔

براہ کرم اس موضوع پر دارالافتا سے باقاعدہ فتویٰ جاری فرما دیں، تاکہ آج کے کاروباری حالات کے تناظر میں واضح اور قابلِ عمل رہنمائی حاصل ہو سکے۔جزاکم اللہ خیراً۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

شریعت میں رزقِ حلال کی ترغیب دی گئی ہے، جبکہ حرام یا مشتبہ امور سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔

آپ نے جو صورتِ حال بیان کی ہے، اس میں ایک تو صاف سودی معاملہ ہے، جو کہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے مترادف ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

“يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ”.   [البقرة:  278، 279]

’اے اہل ایمان اللہ سے ڈرو، اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو، اگر  تم مؤمن ہو،  اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے اعلان جبگ سن لو! اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے راس المال ہیں، نہ تم ظلم کرو، نہ تم پہ ظلم کیا جائے‘۔

“لَعَنَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، وَمُؤْكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ، وَشَاهِدَيْهِ، وَقَالَ: «هُمْ سَوَاءٌ»”. [صحیح مسلم: 4093]

’’رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں‘‘۔

دوسری بات بعض امور مشتبہ ہیں جس حوالے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

“مَنِ اتَّقَى المُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ”. [صحیح بخاری:52]

” جو كوئى بھى مشتبہات سے اجتناب كرتا ہے تو اس نے اپنے دين اور اپنى عزت دونوں كو محفوظ كر ليا”۔

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

“دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ”. [ سنن الترمذي :2518]

’جس ميں تمہيں شک ہو، اسے ترک كر كے، اسے لے لو جس ميں تمہيں شک نہيں‘۔

تیسری بات آپ نے کہا کہ میرا ان سودی اور مشتبہ معاملات میں عمل دخل نہیں، لیکن اس کے باوجود آپ کہہ رہے ہیں کہ کمپنی کی تمام کمائی سے مجھے شیئر ملیں گے، حالانکہ جس چیز میں آپ کا عمل دخل نہیں، اس کا آپ کو شیئر کیوں ملے گا؟

جس طرح آپ کمپنی کے تمام نفع میں شراکت دار ہیں، اسی طرح اگر اس میں کوئی خلافِ شرع کام ہوتا ہے تو اس کے بھی ذمہ دار ہیں۔

لہذا آپ کے لیے جائز نہیں کہ مذکورہ طرز کی کسی بھی کمپنی میں حصہ یا شیئر وغیرہ رکھیں۔

یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آج کل ہر جگہ یہ خرابیاں موجود ہیں لہذا ان سے صرفِ نظر کرنا چاہیے۔ پہلی بات آج بھی حلال ذرائع سے مال کمانے والے ہر شعبے میں موجود ہیں، دوسری بات اگر ساری دنیا بھی کوئی حرام کام کرنا شروع کر دے تو اس سے وہ حلال نہیں ہو جائے گا، بالخصوص سود ایک ایسی لعنت ہے، جس کی کسی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

یہ جو کہا جاتا ہے کہ جہاں سودی و غیر سودی سب معاملات چل رہے ہوتے ہیں، ایسے کاروبار میں حصہ لے لیں، لیکن ایک خاص مقدار میں صدقہ کر دیں تو مال پاک ہو جائے گا، یہ بالکل درست نہیں ہے، مال کو پاک رکھنے کا طریقہ سود لے کر اس میں سے صدقہ کرنا نہیں، بلکہ اپنے کاروبار کو سود سے پاک رکھنا ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ