خوش نصیب ہونا بھی خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، خوش نصیب ہونے کیلئے کسی خاص معجون کی ضرورت نہیں بس ناشکری چھوڑ دیں خود کو آپ بھی خوش نصیب سمجھنے لگیں گے اور ہاں یہ بھی یاد رہے کہ خوش نصیب ہونے کیلئے دولت اور علم کا وافر مقدار میں ہونا ضروری نہیں اگر آپ کے پاس یہ چیزیں بقدر ضرورت ہیں تو آپ دنیا کے ایک خوش نصیب انسان ہیں، ہم نے اس بالی عمریا میں دیکھا ہے کہ بعض دولت مند بھی بھکڑوں کو دیکھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں اسی طرح سے بعض ذی علم بھی ایسے ہوتے ہیں کہ یہ بیچارے عالم ہوتے ہوئے بھی جہلا کو دیکھ کر جھنجھلا جاتے ہیں-

اصل میں حسد وہی کرتا ہے جو دولت مند یا ذی علم ہو جس کے پاس کچھ نہیں ہوگا وہ کیا حسد کرے گا، بعض دولت مند تو ہم نے ایسے دیکھے ہیں جو آلٹو کو دیکھ کر سفاری لے آتے ہیں اور بعض ذی علم ایسے بھی دیکھے ہیں کہ وہ بولتے یا لکھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ صاحب احساس کمتری میں مبتلا ہیں۔

اصل میں ناز ہوتا ہے کہ ہم سند یافتہ ہیں، عالم ہیں بلکہ علم ہمارے گھر کی لونڈی ہے، جاہل تو جاہل ہے اس کے پاس یہ سب کچھ نہیں بس ایسے ذی علم کرتے یہ ہیں کہ جہلا کو اعصاب پر سوار کر لیتے ہیں وہ یہ سوچ کر کڑھتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس ٹھیک ٹھاک علم ہے۔ پروپیگنڈہ مشین ہے لیکن اس کے باوجود پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں تو ایسوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کا ذی علم ہونا مسلّم لیکن جس شعبے کے آپ ماہر ہیں وہاں آپ کے باپ نہیں دادا موجود ہیں اور ایسوں کی موجودگی میں آپ کا چراغ جلنے سے رہا سو جھنجھلا کر آپ کا نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے اس نزلے کو مبصر اور نقاد چاہے جتنا اصولی اور معروضی کا غلاف پہنائیں لیکن برہنگی چھپائے نہیں چھپتی-
ایسے دولت مندوں اور ایسے ذی علموں کو کلی طور پر بدنصیب کہنا بھی درست نہیں، خوش نصیب یہ بھی ہوتے ہیں، دولت مندوں کو تو خصیہ بردار مل جاتے ہیں اور ذی علموں کو احباب کی صورت میں مبصر مل جاتے ہیں کہ نہیں صاحب! یہ گفتگو اصولی ہے، معروضی ہے، ہے تو ہوا کرے لیکن بات نیت کی نہیں ہے، بین السطور کی ہے، متن کے تفہیم کی ہے، بین السطور اور متن سمجھنے والا زیر لب مسکرا کر آگے بڑھ جائے گا اور سمجھ جائے گا کہ بجلی کہاں گری ہے، کلام میں چاہے جتنی پیچیدگی اور ابہام ہو لیکن طالب علم تو منزل مقصود تک پہنچ ہی جاتا ہے-
یہ آگ ہے ہوس کی جھلس دے گی اسے بھی
سورج سے کہو سایۂ دیوار میں آئے

رشید ودود