سوال (2744)

سور چربی کی تاریخ
یورپ سمیت تقریبا تمام امریکی ممالک میں گوشت کے لئے بنیادی انتخاب سور ہے۔ اس جانور کو پالنے کے لئے ان ممالک میں بہت سے فارم ہیں صرف فرانس میں، پگ فارمز کا حصہ 42،000 سے زیادہ ہے، کسی بھی جانور کے مقابلے میں سور میں زیادہ مقدار میں FAT ہوتی ہے لیکن یورپی و امریکی اس مہلک چربی سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں، اس چربی کو ٹھکانے لگانا ان ممالک کے محکمہ خوراک کی ذمہ داری ہوتی ہےاس چربی کو ختم کرنا محکمہ خوراک کا بہت بڑا سردرد تھا
اسے ختم کرنے کے لیئے باضابطہ طور پر اسے جلایا گیا، لگ بھگ 60 سال بعد انہوں نے پھر اس کے استعمال کے بارے میں سوچا تاکہ پیسے بھی کمائے جا سکیں، صابن بنانے میں اس کا تجربہ کامیاب رہا ، شروع میں سور کی چربی سے بنی مصنوعات پر contents کی تفصیل میں pig fat واضح طور پر لیبل پر درج کیا جاتا تھا، چونکہ ان کی مصنوعات کے بڑے خرہدار مسلمان ممالک ہیں اور ان ممالک کی طرف سے ان مصنوعات پر پابندی عائد کر دی گئی، جس سے ان کو تجارتی خسارہ ہوا، 1857 میں اس وقت رائفل کی یورپ میں بنی گولیوں کو برصغیر میں سمندر کے راستے پہنچایا گیا،سمندر کی نمی کی وجہ سے اس میں موجود گن پاؤڈر خراب ہوگیا اور گولیاں ضایع ہو گئیں ، اس کے بعد وہ سور کی چربی کی پرت گولیاں پر لگانے لگے، گولیوں کو استعمال کرنے سے پہلے دانتوں سے اس چربی کی پرت کو نوچنا پڑتا تھا، جب یہ بات پھیل گئی کہ ان گولیوں میں سور کی چربی کا استعمال ہوا ہے تو فوجیوں نے جن میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سبزی خور ہندو تھے نے لڑنے سے انکار کردیا، جو آخر کار خانہ جنگی کا باعث بنا، یورپی باشندوں نے ان حقائق کو پہچان لیا اور PIG FAT لکھنے کے بجائےانہوں نے FIM لکھنا شروع کر دیا، 1970کے بعد سے یورپ میں رہنے والے تمام لوگ حقیقت کو جانتے ہیں کہ جب ان کمپنیوں سے مسلمان ممالک نے پوچھا کہ یہ کیا ان اشیا کی تیاری میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ھے اور اگر ھے تو کون سی ہے…؟ تو انہیں بتایا گیا کہ ان میں گائے اور بھیڑ کی چربی ہے یہاں پھر ایک اور سوال اٹھایا گیا، کہ اگر یہ گائے یا بھیڑ کی چربی ہے تو پھر بھی یہ مسلمانوں کے لئے حرام ہے، کیونکہ ان جانوروں کو اسلامی حلال طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا تھا، اس طرح ان پر دوبارہ پابندی عائد کردی گئی اب ان کثیر القومی کمپنیوں کو ایک بار پھر کا نقصان کاسامنا کرنا پڑا، آخر کار انہوں نے کوڈڈ زبان استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ صرف ان کے اپنےمحکمہ فوڈ کی ایڈمنسٹریشن کو ہی پتہ چل سکے کہ وہ کیا استعمال کر رہے ہیں اور عام آدمی اندھیرے میں ہی رہے اس طرح انہوں نے ای کوڈز کا آغاز کیا یوں آجکل یہ E-INGREDIENTS کی شکل میں کثیر القومی کمپنیوں کی مصنوعات پر لیبل کے اوپر لکھی جاتی ہیں، ان مصنوعات میں دانتوں کی پیسٹ، ببل گم، چاکلیٹ، ہر قسم کی سوئٹس، بسکٹ،کارن فلاکس،ٹافیاں کینڈیڈ فوڈز ملٹی وٹامنز اور بہت سی ادویات شامل ہیں چونکہ یہ سارا سامان تمام مسلمان ممالک میں اندھا دھند استعمال کیا جارہا ہے اس لئیے سور کے اجزاء کے استعمال سے ہمارے معاشرے میں بے شرمی، بے رحمی اور جنسی استحصال کے رحجان میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو مل رہا ھے، لہذا تمام مسلمانوں اور سور کے گوشت سے اجتناب کرنے والوں سے درخواست ھے کہ وہ روزانہ استعمال ہونے والے ITEMS کی خریداری کرتے وقت ان کے content کی فہرست کو لازمی چیک کرلیا کریں اور ای کوڈز کی مندرجہ ذیل فہرست کے ساتھ ملائیں اگر نیچے دیئے گئے اجزاء میں سے کوئی بھی پایا جاتا ہو تو پھر اس سے یقینی طور پر بچیں کیونکہ اس میں سور کی چربی کسی نہ کسی حالت میں شامل ہے
‏ E100 ، E110 ، E120 ، E140 ، E141 ، E153 ، E21، E213 ، E214 ، E216 ، E234 ، E252 ، E270 ، E280 ، E325 ، E326 ، E 327 ، E334 ، E335 ، E336 ، E337 ، E422 ، E41 ، E431 ، E432 ، E433 ، E434 ، E435 ، E436 ، E440 ، E470 ، E471 ، E472 ، E473 ، E474 ، E475 ، E476 ، E477 ، E478 ، E481 ، E482 ، E483 ، E491 ، E492 ، E493 ، E494 ، E549 ، E542 E572 ، E621 ، E631 ، E635 ، E904
ڈاکٹر ایم امجد خان
میڈیکل ریسرچ انسٹیٹیوٹ
کیا یہ صحیح ہے ؟

جواب

سو فيصد صحيح ہے۔

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ