سوال (2942)

آج کل جو طوفان بدتمیزی چلا ہوا علماء کے مابین میڈیائی مفتیوں کا کہ فلاں نے غلط کیا ہے، فلاں نے درست کیا ہے، جیسے فضیلة الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ، فضیلة الشیخ غلام مصطفی ظہیر حفظہ اللہ اور فضیلة الشیخ سید سبطین شاہ نقوی حفظہ اللہ جو انہوں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب حفظہ اللہ سے متعلقہ باتیں کی ہیں، اب عوام کو کیا کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے کہ علماء کرام میں ایسے فروعی اختلافات ہو جاتے ہیں تو عوام کو کیا حق ہے، علماء کرام پہ زبان درازی کریں، اور کسی کو صحیح و غلط کا فتوی دیں۔ آپ اس سے متلق کیا کہتے ہیں اور مزید کوئی نصیحت فرمائیں۔

جواب

ہمارے بعض دانشوروں نے جو انداز تکلم، انداز اختلاف اختیار کر رکھا ہے یہ انداز قرآن وسنت اور تعامل سلف صالحین سے نہیں ملتا ہے، یہ طریقہ مسلک اہل حق کا نہیں ہے، دفاع حق اور کسی حق والے کی غلطی پر اصلاح کا طریقہ حکمت وخیر خواہی والا ہونا چاہیے ہے، آج جتنا خالص حق ہمارے پاس ہے، اس سے زیادہ سخت ہمارے رویے ہیں۔ قرآن و سنت ہمیں نرمی، حسن اخلاق اور حکمت کے ساتھ دعوت واصلاح کا درس دیتا ہے، اختلاف عقائد و نظریات کا ہو یا فروعات کا بس آداب اختلاف، آداب گفتگو کا خیال رکھنا چاہیے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

اس سوال میں پوچھا گیا ہے کہ عوام کو کیا کرنا چاہیے؟
تو عوام کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ تمام علمائے کرام کا احترام بجا لائیں اور جہاں ان میں اختلاف ہے، وہاں انہیں دلائل کی رو سے جس موقف پر شرح صدر ہوتا ہے، اس پر عمل کریں یا اس کے مطابق رائے رکھیں۔
لیکن جس کی رائے کو وہ غلط یا موقف کو مرجوح سمجھتے ہیں، ان علماء کی عزت و احترام کو بھی برقرار رکھیں، غلطی کی بنیاد پر لعن و ملامت اور استہزاء کا رویہ ہرگز اختیار نہ کریں ورنہ بعید نہیں کہ اس کے سبب آپ علم اور علماء سے دور ہوں اور قبیح قسم کی غلطیوں اور عادات میں مبتلا ہو جائیں۔
بعض دفعہ علماء سے بھی اللہ تعالی غلطی کروا دیتا ہے، تاکہ خود انہیں بھی اور ان کے پیروکاروں کو بھی احساس رہے کہ ہدایت اور استقامت اللہ کا فضل ہے اور اس کا اختیار ہے، مخلوق میں عظیم ہستیاں بھی اس کا صرف ذریعہ اور وسیلہ ہیں، ہدایت کے مالک اور خالق نہیں ہیں…!
اور عالم و مربی کی غلطی کے وقت خود اس عالم کی تعلیم و تربیت اور ان کے شاگردوں اور پیروکاروں کی اہلیت و صلاحیت کا بھی امتحان ہوتا ہے کہ کیا واقعتا انہیں حق و باطل کی پہچان ہو گئی یا پھر محض ان خوشنما نعروں کے تحت وہ شخصیت پرستی کی آزمائش میں ہی مبتلا ہیں۔
اسی طرح دوسری طرف سے اس چیز کی بھی نشاندہی ہو جاتی ہے کہ غلطی کے واضح ہونے کے بعد تمیز سے اختلاف و اصلاح کرنے والے کون ہیں اور بدتمیزی کن کا شعار ہے..!
خلاصہ یہ ہے کہ ایک عام انسان ذاکر نائیک صاحب اور ان کی تائید کرنے والے علمائے کو غلط کہہ سکتا ہے نہ ان پر تنقید کرنے والے اہلِ علم و فضل کو، کیونکہ عام لوگوں کا یہ میدان ہے نہ ان میں ایسی صلاحیت ہوتی ہے۔
اور یہ صرف شرعی علم اور علماء کا مسئلہ نہیں ہے، دیگر علوم و فنون کا اصول بھی یہی ہے، کسی طبی مسئلے سے متعلق دو ڈاکٹر حضرات کا آپس میں اختلاف ہو جائے تو کسی عامی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ دونوں میں سے کسی کو غلط اور کسی کو صحیح قرار دے۔ اسی طرح کسی بلڈنگ بنانے میں انجینئرز اختلاف رائے کا شکار ہو جائیں تو کسی دوسرے شخص کو یہ اختیار نہیں کہ وہ آگے بڑھ کر اپنی رائے دینا شروع کر دے۔ واللہ اعلم۔
جہاں تک علمائے کرام کی بات ہے تو چونکہ یہ ان کا میدان ہے، لہذا ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے موقف کو دلائل سے بیان کریں اور دوسرے کے موقف کی دلائل سے تردید کریں۔
علمائے کرام آپس میں ایک دوسرے سے اختلاف بھی کر سکتے ہیں، ایک دوسرے کے دلائل کا نقض اور تردید بھی کر سکتے ہیں۔
اپنے اپنے علم و فضل اور اجتہاد کی بنیاد پر مصالح و مفاسد کا تعین بھی کر سکتے ہیں، ان تفصیلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جو کہ فقہ الخلاف اور آدابِ اختلاف کا حصہ ہیں۔ واللہ اعلم۔
علماء کا ایک دوسری کی غلطیوں کے اصلاح کے حوالے سے کیا رویہ ہونا چاہیے، اس پر علامہ عبد الرحمن بن یحیی المعلمی رحمہ اللہ کا ایک بہت خوبصورت شذرہ ہے، انٹرنیٹ پر عام دستیاب ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اعلانیہ رد و قدح پر اکتفا کرنے کی بجائے آپس میں میل ملاقات اور خط و کتابت اور ذاتی روابط کے رویہ کو بھی پروان چڑھانا چاہیے، کیونکہ مقصود اصلاح اور افہام و تفہیم ہے نہ کہ صرف ’خبردار’ یا ’براءت کا اظہار کرنا’۔ اور اصلاح کے لیے دوسرا کام بھی ضروری ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

میرے بہت بہت پیارے شیخ خضر بھائی آپ کی تمام باتیں بالکل درست ہیں البتہ آخر میں آپ نے کچھ ایسی باتیں لکھی ہیں جن کا کوئی غلط مفہوم بھی لے سکتا ہے، ہمیں ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایسی بات نہ کہیں جس کے خلاف پھر کبھی بات کرنی پڑے مثلاً : آپ نے دو ڈاکٹروں اور دو انجینیئروں والی مثال دی ہے تو یہی مثال مقلد دیتے ہیں کہ کسی امام کو غلط نہیں کہنا چاہئے بس آپ کو جو سمجھ آتی ہے اس پہ عمل کر لینا چاہئے پھر تو آپ ڈاکٹر ذاکر نائیک والا موقف یہاں لاگو کروانا چاہ رہے ہیں کہ ہر کوئی اپنی تحقیق کر لے دوسرے کے امام کو غلط نہ کہے
مجھے پتا ہے آپ کا مفہوم یہ نہیں تھا لیکن لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

جی شیخ ارشد صاحب! تعبیر میں فرق ہو سکتا ہے، لیکن اس بات پر ہم سب کا اتفاق ہے کہ عام شخص کے پاس یہ اہلیت نہیں کہ علماء کی تردید و تغلیط کا مشغلہ اختیار کرے، یہ کام علمائے کرام کا ہی ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

انتہائی پیارے شیخ محترم پھر قرآن میں ایک آیت ہم بہت کوٹ کرتے ہیں،

” فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول”

میرا سوال ہے کہ اس آیت کا مخاطب کون ہیں؟ عالم ہیں یا عوام ہے یا دونوں ہیں؟ علماء کی شان میں گستاخی کرنا غلط ہے، لیکن دو علماء میں اختلاف ہونے پہ کسی ایک عالم کو درست سمجھنا اور درست کہنا غلطی نہیں ہے۔ بلکہ مطلوب ہے

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ