سوال (2732)

میرے والد محترم نے ہماری والدہ کے انتقال کے بعد رخسانہ نامی خاتون سے شادی کرلی ہے، ابا جان کی وفات کے بعد ہماری سوتیلی والدہ بیمار ہوگئیں ہیں، جن کی ہم نے ہرممکن خدمت اور علاج معالجہ کیا دو سال کی علالت کے بعد وہ بھی لا ولد انتقال کر گئی ہیں، البتہ انہوں نے ہمارے ابا جان کی پوتی کو لے پالک رکھا ہوا تھا، ان کی وراثت کی تقسیم کے بارے میں پوچھنا ہے، اس کے وارث کون ہونگے، ہم اس کے شوہر کے بیٹے یا ہماری سوتیلی والدہ کے بہن بھائی؟ یاد رہے کہ ہماری اس والدہ کا اپنے بھائی کے ساتھ تعلق نہ ہونے کے برابر ہے، بلکہ بیماری کے عالم میں نہ تو تیمارداری اور نہ ہی علاج معالجہ میں کوئی معاونت اور ان کی زندگی میں زیور کا مطالبہ کیا تھا، لیکن انہوں نے اسے نہیں دیا ہے۔

جواب

وراثت کے مندرجہ ذیل اصول یہاں لاگو ہوتے ہیں:
1:کس نے میت کی خدمت کی اور کس نے میت کو تکلیف پہنچائی اس کا وراثت کی تقسیم پہ کوئی اثر نہیں پڑتا اسی لیے اسلام میں نافرمان اولاد کو عاق کرنا جائز نہیں ہے۔
2: وارث کے حق میں تو وصیت نہیں لیکن غیر وارث کی خدمت کے صلے میں یا بغیر خدمت ہی ایک تہائی مال کی وصیت کی جا سکتی ہے، پس اگر آپ کی سوتیلی ماں نے لے پالک پوتی یا آپ کے والد کی اولاد کے لیے کوئی ایسی وصیت کی ہے تو وہ لاگو ہو گی۔
3: وراثت میں پہلے اصحاب الفرائض ہیں، جن میں شوہر یا نیچے اولاد یا اوپر والدین ہو سکتے ہیں اور آپ کی سوتیلی والدہ کی پرانی کوئی اولاد ہے یا والدین ہیں تو انکو مقرر حصہ ملے گا لیکن آپ کے سوال میں ایسا شاید نہیں ہے، اس کے بعد عصبہ قریبی مرد ہوتا ہے اور وہ بہن بھائی ہیں، پس آپ کی سوتیلی والدہ کا جو جائیداد میں آٹھواں حصہ ہے وہ ان کے بہن بھائی کو ہی ملے گا واللہ اعلم
آپ کی سوتیلی والدہ کی اگر کوئی پرانی جائداد بھی ہے جو آپ کے والد کی جائیداد کے آٹھویں حصہ کے علاؤہ ہے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ