سوال
1. اسپاٹ ٹریڈنگ میں کسی اثاثے (جیسے سونا، کرنسی، یا اسٹاک) کی فوری خرید و فروخت کی جاتی ہے۔ اس میں قیمت اسی وقت طے ہوتی ہے اور خریدار فوری طور پر ادائیگی کر کے اثاثہ حاصل کر لیتا ہے۔ اس کی بنیادی خصوصیات درج ذیل ہیں:
لین دین فوری مکمل ہوتا ہے۔
قیمت حقیقی وقت میں طے کی جاتی ہے۔
اثاثہ خریدار کے قبضے میں فوراً آ جاتا ہے۔
مثلا: اگر آپ بٹ کوائن اسپاٹ مارکیٹ میں خریدتے ہیں، تو آپ کو فوراً بٹ کوائن مل جائے گا اور اس کی قیمت کے مطابق ادائیگی کرنی ہوگی۔
- فیوچر ٹریڈنگ (Future Trading):
فیوچر ٹریڈنگ میں کوئی بھی اثاثہ مستقبل کی تاریخ پر خریدنے یا بیچنے کا معاہدہ کیا جاتا ہے، لیکن اس کی قیمت آج طے کی جاتی ہے۔ اس میں ادائیگی اور ڈیلیوری بعد میں ہوتی ہے۔
اس میں خریدار اور فروخت کنندہ ایک معاہدہ کرتے ہیں کہ وہ مستقبل میں ایک مخصوص قیمت پر اثاثہ خریدیں یا بیچیں گے۔
اس میں اکثر لیوریج (Leverage) یعنی ادھار کی سہولت دی جاتی ہے، جس سے لوگ زیادہ منافع (یا نقصان) اٹھا سکتے ہیں۔
یہ زیادہ تر قیاس آرائی (Speculation) پر مبنی ہوتی ہے، یعنی لوگ محض قیمت کے اتار چڑھاؤ سے منافع کمانے کی کوشش کرتے ہیں، بغیر اصل اثاثہ خریدے۔
مثال: اگر کوئی تاجر 1 مہینے بعد 1 بٹ کوائن 50,000 ڈالر میں خریدنے کا معاہدہ کرتا ہے، اور اگر اس وقت مارکیٹ میں قیمت 55,000 ڈالر ہو جائے، تو وہ منافع کمائے گا، لیکن اگر قیمت 45,000 ڈالر ہو جائے، تو اسے نقصان ہوگا۔
بٹ کوائن کی شرعی و قانونی پوزیشن واضح کر دیں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اسپاٹ ٹریڈنگ اور فیوچر ٹریڈنگ کی شرعی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے، بنیادی طور پر اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھنا ہوگا، اسلامی اصولوں کے مطابق کسی بھی بیع کا سود (ربا)، غرر (غیر یقینی معاہدہ) اور قمار (جوا) سے پاک ہونا اور اسکاحقیقی قبضہ ہونے کی شرائط شامل ہیں۔
- اسپاٹ ٹریڈنگ میں اثاثہ (جیسے سونا، کرنسی، اسٹاک، یا بٹ کوائن) خریدار کو فوری طور پر مل جاتا ہے، اور وہ اسی وقت ادائیگی کر دیتا ہے۔ یہ اسلامی اصولوں کے مطابق جائز ہو سکتا ہے، بشرطیکہ: قبضہ فوری طور پر ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’جو شخص سونا چاندی خریدے، تو ہاتھوں ہاتھ لین دین کرے‘۔ [صحیح مسلم: 1587]
یعنی خرید و فروخت میں فوری قبضہ ضروری ہے۔ اگر بٹ کوائن یا کوئی اور کرنسی خریدار کے والٹ میں فوراً منتقل ہو جائے، تو یہ جائز ہے۔ یہ اس صورت میں ہے جب بٹ کوائن قانونی طور پر جائز قرار دی جائے۔ معاملہ میں کوئی سود (ربا) نہ ہو، اور اگر اسپاٹ ٹریڈنگ کرنسی کے تبادلے (Forex) میں ہو رہی ہو، تو اس میں ہاتھوں ہاتھ تبادلہ (یَدًا بِيَدٍ) کی شرط پوری ہونی چاہیے۔
جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گندم گندم کے بدلے برابر برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہونا چاہیے‘۔ [صحیح مسلم: 1588]
اگر اسپاٹ ٹریڈنگ میں یہ شرائط پوری ہو رہی ہوں، تو یہ شرعی طور پر جائز ہے۔
- فیوچر ٹریڈنگ میں کوئی شخص آج کسی چیز کو خریدنے یا بیچنے کا معاہدہ کرتا ہے، مگر قبضہ اور ادائیگی مستقبل میں ہوتی ہے۔ اس پر درج ذیل اسلامی اصول لاگو ہوتے ہیں:
1.فیوچر ٹریڈنگ میں اکثر لوگ قیاس آرائی (Speculation) کرتے ہیں، یعنی وہ حقیقی اثاثہ خریدنے کے بجائے صرف قیمت کے اتار چڑھاؤ پر شرط لگاتے ہیں۔ یہ جوا (قمار) اور غیر یقینی (غرر) میں آتا ہے، جو حرام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
“نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ”. [صحیح مسلم: 1513]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے‘‘۔
2.شریعت میں ایسی چیز بیچنا جس پر ابھی قبضہ نہ کیا ہو، ناجائز ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ”. [سنن الترمذی: 1232]
’مت بیچو وہ چیز جس پر تمہارا قبضہ نہیں‘۔
فیوچر ٹریڈنگ میں زیادہ تر لوگ وہ اثاثہ بیچ دیتے ہیں جس پر ان کا قبضہ نہیں ہوتا، بلکہ صرف کاغذی معاہدہ ہوتا ہے، جو ناجائز ہے۔
3.فیوچر مارکیٹ میں عام طور پر لیوریج دیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ بروکر قرض دیتا ہے، اور اس پر سود لیا جاتا ہے۔ سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے:
“اَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا”.
’اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے‘۔ (البقرہ: 275)
جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے، بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کی شرعی حیثیت پر علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے، جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:
- بٹ کوئن کی شرعی حیثیت
کرنسی کے لیے شریعت میں درج ذیل شرائط ہوتی ہیں:
1.حکومت یا کسی مقتدر ادارے کی منظوری – شریعت میں مال وہ ہوتا ہے جسے عرف عام میں لوگ قبول کریں اور اس کی قانونی حیثیت ہو۔
2.کرنسی کی قدر اتنی زیادہ اتار چڑھاؤ والی نہ ہو کہ یہ قیاس آرائی کا شکار ہو جائے۔
3.کرنسی کا عام طور پر حلال مقاصد کے لیے استعمال ہونا ضروری ہے۔
بعض علماء کے نزدیک بٹ کوائن جائز ہے کیونکہ یہ لین دین کا ایک جدید ذریعہ ہے، جیسے سونے، چاندی، یا دیگر اجناس کا استعمال ہوتا رہا ہے۔ بعض ممالک نے اسے قانونی طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ اس کا تبادلہ ہاتھوں ہاتھ (اسپاٹ ٹریڈنگ) میں ہو تو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو سکتا ہے۔
بعض علماء کے نزدیک بٹ کوائن ناجائز ہے کیونکہ یہ کسی حکومت کی ضمانت شدہ کرنسی نہیں، بلکہ ایک غیر مستحکم ڈیجیٹل اثاثہ ہے۔ اس میں قیاس آرائی زیادہ ہے، جو جوا (قمار) کے مشابہ ہے۔ اس کا اکثر استعمال غیر قانونی سرگرمیوں جیسے منی لانڈرنگ اور ڈارک ویب میں ہوتا ہے۔
نتیجہ: اگر بٹ کوائن کو صرف اسپاٹ ٹریڈنگ میں حقیقی قبضہ اور حلال تجارت کے لیے استعمال کیا جائے، تو بعض علماء اس کے جواز کے قائل ہیں،لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ حکومت وقت نے اسے قانونی قرار دیا ہو۔ لیکن اگر اسے محض قیاس آرائی یا فیوچر ٹریڈنگ میں استعمال کیا جائے، تو یہ ناجائز ہوگا۔
- بٹ کوائن کی قانونی حیثیت
بٹ کوائن کی قانونی پوزیشن مختلف ممالک میں مختلف ہے:
بعض ممالک (جیسے امریکہ، کینیڈا، جاپان) نے اسے قانونی تسلیم کیا ہے۔
بعض ممالک (جیسے چین، سعودی عرب) نے اسے ممنوع قرار دیا ہے۔
پاکستان میں اس پر اسٹیٹ بینک نے 2018 میں پابندی عائد کی تھی، مگر اب حکومتی سطح پر اس کے ریگولیشن پر غور کیا جا رہا ہے۔
لہذا اگر کسی ملک میں بٹ کوائن غیر قانونی ہو تو شہریوں کو اس سے بچنا چاہیے، کیونکہ اطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم کا تقاضا یہی ہے۔
حتمی فیصلہ:
- اگر بٹ کوائن کو جائز خرید و فروخت (اسپاٹ ٹریڈنگ) میں حقیقی قبضہ کے ساتھ استعمال کیا جائے، تو یہ بعض علماء کے نزدیک جائز ہے۔
- اگر اس کا استعمال قیاس آرائی فیوچر ٹریڈنگ، یا غیر قانونی کاموں میں ہو، تو یہ ناجائز ہے۔
- اگر کسی ملک میں یہ غیر قانونی ہے، تو وہاں اس کا استعمال شرعاً بھی درست نہیں ہوگا۔
- گو کہ بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل کرنسیز میں پیپر کرنسی کے مقابلے میں ایسی قباحتیں کہیں زیادہ ہیں جن کی وجہ سے لین دین میں غرر، خدع، ادھار، جھوٹ، غیر مستحکم ، وغیرھا جیسے پہلو بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ میں نے کرنسی پر باقاعدہ ایک کتاب کے لیے جو نوٹس اور مواد جمع کیا ہوا ہے اس میں ایک باب پیپر کرنسی اور ڈیجیٹل کرنسی کے تقابل کا بھی ہے، بہرحال کسی زر کا بطور کرنسی معین قرار دیے جانے میں المعاییر الشرعیہ جو میں نے جمع کیے ہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔ جس کے بعد بٹ کوائن کی شرعی حیثیت تو مشکوک ہے ہی مزید جب اسے قانونی تحفظ حاصل نہ ہو تو اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔ کوئی بھی چیز بطور کرنسی استعمال ہو سکتی ہے، اگر وہ درج ذیل شرائط پر پوری اترے:
1.اس کا کوئی حقیقی وجود اور قدر ہو (Intrinsic Value)
2.اسے لوگ قبول کریں اور یہ قابلِ تبادلہ ہو (Medium of Exchange)
3.اس کی قیمت بہت زیادہ غیر مستحکم نہ ہو (Stability)
4.یہ ذخیرۂ قدر (Store of Value) کے طور پر کام کرے
5.اس میں دھوکہ، غرر، اور قیاس آرائی نہ ہو
اگر کوئی زر (Money) ان شرائط پر پورا اُترتا ہو تو وہ شرعی لحاظ سے بطور کرنسی قابلِ قبول ہو سکتا ہے۔
لہذا خلاصہ کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسپاٹ ٹریڈنگ اگر حقیقی قبضہ اور فوری ادائیگی کے ساتھ ہو، تو جائز ہے، بشرطیکہ اس میں کرنسی کی شرائط پوری ہوں اور حکومت وقت نے اسے قانونی قرار دیا ہو۔ جبکہ فیوچر ٹریڈنگ میں غرر، جوا، قبضہ کے بغیر بیع، اور سود شامل ہوتا ہے، اس لیے یہ شرعی طور پر ناجائز ہے۔
تحریر کنندہ : ڈاکٹر شاہ فیض الابرار صدیقی
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ