سوال (3345)

میرا سوال ہےکہ کیا جو اسپوٹ ٹریڈنگ ہے، مطلب کہ کسی بروکر سے ایک کوائن کو خریدنا اور اسے اثاثے کے طور پر اپنے پاس رکھ لینا اور پھر جب قیمت بڑھے تو اسے بیچ دینا؟ تو کیا اس طرح جو کرپٹو کے ٹریڈ ہوتے ہیں، کیا یہ حلال ہے یا حرام؟ تفصیلی جواب دے کر شکریہ کا موقع دیں۔ بارک اللہ فیکم۔

جواب

الجواب الصواب بعون الملك الوهاب
معاشی نظریات میں سے ایک اہم نظریہ یاد رکھیں کہ اصل “زر” سونا یا پھر چاندی ہے۔ مسلم حکومتوں کو اس سلسلے میں اپنی اپنی حتی المقدور کوششیں کرنی چاہیے کہ یہ دوبارہ بطور کرنسی رائج ہو جائے۔ کیونکہ خیر القرون سے لیکر 18 صدی تک یہی واحد ذریعہ “التعامل بین الناس” تھا۔ اگرچہ درمیان میں کچھ عرصہ فلوس کا بھی رواج عام رہا ہے۔ اور اس لیے بھی اس زر میں وہ نقصانات نہیں ہوتے جو کہ flat money یا پھر decentralized currency میں ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ مرور زمانہ سے ان کی value کبھی بھی fluctuate نہیں کرتی، بلکہ ہزاروں سال بعد بھی یہ باآسانی divisible ہوتی ہے۔ اور اس لیے بھی کہ قرآن وسنت کی بنیاد پر بھی صرف اور صرف یہی زر idealized ہے۔
سوال کا جواب جاننے سے پہلے cryptocurrency کے متعلق کچھ بنیادی معلومات جان لینا ضروری ہیں۔
اس کو cryptocurrency یا پھر digital currency یا پھر virtual currency کہا جاتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کے ذریعے کام کرتی ہے، اگر internet موجود ہے تو یہ کام کرے گی، ورنہ نہیں۔ اور cryptographic system کے ذریعے کام کرتی ہے، یہ کرنسی non asset based اور decentralized currency کہلاتی ہے. اور یہ open source software کے تحت کام کرتی ہے۔ اس کی کوئی back نہیں ہوتی، اور نا ہی اس کی کوئی guarantee ہوتی ہے۔ یہ کرنسی -جو حقیقت میں کرنسی نہیں ہے- ایک financial asset کے طور پر پوری دنیا میں سمجھی اور جانی جاتی ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں میں سے چند ایک یہ تھے:
– ایسی کرنسی ایجاد کی جائے جو بغیر کسی بنک کے، بغیر کسی 3rd Party کے، بغیر کسی ملک کے، اور بغیر کسی گورنمنٹ کے کام کرے۔
– اس کا ایک hard cap بھی ہو، اور اس کا milestone بھی اور وہ 21 ملین امریکی ڈالر ہو، جو کہ سن 2140 میں مکمل کیا جا سکے۔
– centralized banking system سے نجات حاصل کرنا۔
– ڈالر کی قوت خرید وفروخت کو گرانا۔
– black market کو وسیع پیمانے پر پھیلانا وغیرہ وغیرہ۔
دنیا کے کچھ ممالک نے اسے legal currency کے طور پر متعارف کروا دیا ہے، اور ان ممالک میں اس کے باقاعدہ legal tenders بھی بنا لیے گئے ہیں۔ان ممالک میں: El Salvador, Central African Republic, Utah, Colorado, Switzerland, India, China, Iran سر فہرست ہیں۔ ان ممالک کا اس کو استعمال کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا وجود ہے۔ کچھ علماء کرام نے اس کے وجود کا ہی انکار کر دیا ہے جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
کریپٹوکرنسی اور بٹن کائن میں فرق:
دونوں کا فرق سمجھنے کے لیے یہ ذہن نشین کر لیں کہ cryptocurrency ایک umbrella term ہے، اس کے ماتحت کئی اقسام کے coins آتے ہیں مثلا: Bitcoin, Litecoin, Ripple ,Ethereum, Solana, Trone
بلاک چینز کیا ہوتی ہیں؟
یہ ایک طرح سے database ہے۔ دراصل cryptocurrency میں data کو مختلف بلاکس یعنی ٹکڑوں کی شکل میں store کیا جاتا ہے۔ پچھلے بلاک کا hatch اگلے بلاک میں ہوتا ہے، اور اگلا بلاک بننے پر پچھلے میں کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ان بلاکس میں کسی بھی قسم کی معلومات Store کی جا سکتی ہیں، جیسے کسی انسان کی صحت کی معلومات، کسی انسان کی تعلیمی معلومات۔ اور یہ سب بلاکس freely accessed ہوتے ہیں، مطلب ان معلومات تک رسائی server computer کے ساتھ ساتھ ہر p to p طریقے سے منسلک کمپیوٹرز تک ہوتی ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہے کیونکہ ہر بلاک کی multiple copies سب nods کے ساتھ شیئر ہوئی ہوتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہر coin کی مختلف block chains ہوتی ہیں اور ساتھ ساتھ مختلف خصوصیات۔
بلاک چین اور بٹ کوائن میں فرق:
دونوں میں فرق ہے، block chain ایک data base ہے؛ اور bitcoin ایک طرح سے کمپیوٹر کی ایک قسم کی فائل۔
ان دونوں کے مابین فرق سمجھنے کے لیے ذیل کا قاعدہ ذہن نشین کر لیں۔
Bitcoin is a type of file, stored in a data base and that data base is termed as “block chain”.
( پاکستان میں یہ ایک grey area کے طور پر متعارف ہے، افغانستان میں اس پر پابندی ہے۔ انڈیا میں تو اس کا باقاعدہ License ملتا ہے اور ٹیکس کی deduction بھی کی جاتی ہے۔ انڈیا نے اس کا ایک مستقل قانون بھی بنا رکھا ہے۔ ایران کے اندر آپ اس پر mining کر سکتے ہیں اور import پر investment کر سکتے ہیں۔ چائینہ میں Hong Kong China میں یہ قانونا جائز ہے، لیکن Main Land China میں آپ coins اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، لیکن آپ اس کے ذریعے تجارت نہیں کر سکتے۔ ملک پاکستان کی صورت حال دیکھی جائے تو یہاں اس کا کوئی مستقبل نظر نہیں آتا، کیونکہ اگر یہ قانونا جائز کرا دی جائے تو ملک کے foreign exchange کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا۔ لہذا اس کو ملک پاکستان میں متعارف کروانے سے پہلے اس کی proper legal settings پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے۔)
اشکال:
ذیل میں کچھ اشکال پیش کیے جا رہیں ہیں جو اس کرنسی کے حوالے سے خاص وعام کے ہاں معروف ہیں۔ پھر ان اشکال کے مختصر جوابات بھی دیے جائیں گے تاکہ اصل حقیقت تک رسائی حاصل ہو جائے۔
اشکال: کمپیوٹر میں بنائی گئی چیزوں پر فرضی چیز کا حکم لگتا ہے۔ لہذا یہ معاملات بھی فرضی، وہمی، اور غیر حقیقی ہیں، اور ان کی کوئی خارجی حقیقت نہیں ہوتی۔
جواب: ڈیجیٹل بنک بیلنس، اور ذہن کو intense کرنے والی چیزوں کو دیکھیں تو یہ اشکال ختم ہو جائے گا۔
اشکال: اس کی پشت پر حکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ state bank of Pakistan نے 2018 میں bitcoin کے معاملے میں کسی بھی bank کو facilitate کرنے سے منع کر دیا۔ پس پردہ اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر اس coin کے حوالے سے کوئی dispute ہوتی ہے تو state bank of Pakistan اس کا ذمہ دار نا ہو گا۔
جواب: کئی ممالک جو اس کو قبول کر چکے ہیں وہاں حکومت کی باقاعدہ پشت پناہی حاصل ہے۔
اشکال: اس بیع میں ثمن یا زر کی کوئی شکل موجود نہیں ہے، لہذا ناجائز ہے۔
جواب: بیع کی صحت کے لیے ہمیشہ ثمن یا زر کا لازمی ہونا شرط نہیں ہے۔ crypto currency حقیقت میں کرنسی نہیں ہے بلکہ یہ ایک زر ہے، اور اصلا یہ virtual currency ہے۔ لہذا اس کو عام کرنسی کی طرح سمجھنا صحیح نہیں۔ فقہاء کے ہاں زر اور کرنسی میں فرق ہے۔ زر ہر وہ چیز ہے جسے لوگ عرف میں زر سمجھیں جیسے چیک، پرائز بانڈ، اور کسی دوسرے ملک کی کرنسی اور کرنسی وہ ہے جو کسی ملک کا legal tender ہو۔
اشکال: اس میں جوئے اور سٹے بازی کا پہلو نکلتا ہے جو کہ حرام ہیں۔
جواب: اسے شرعاً قمار کہتے ہیں۔ اس میں اس کا پہلو نکلتا ہے لیکن بھت زیادہ نہیں۔ دوسرا کاروباری معاملات میں کئی مثالیں موجود ہیں کہ جہاں قمار کا پہلو نمایاں نظر آتا ہے، جیسے سبزی و فروٹ منڈی کے کاروبار میں، تو کیا اب ہم اس متعلقہ کاروبار کو ناجائز کہہ دیں گے۔
اشکال: اس کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ بہت زیادہ ہے، ٹھہراؤ نہیں ہے لہذا ناجائز ہے ۔
جواب: اتار چڑھاؤ تو آج کل تباہ حال ملکی معیشت کی وجہ سے تقریباً ہر چیز میں ہو رہا ہے تو کیا تمام چیزیں ناجائز ہو گئیں؟. یہ اشکال سب سے زیادہ ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھاؤ پر آتا ہے۔ تو کیا اب ڈالر کا بطور کرنسی لین دین کرنا ناجائز ٹھہرا ؟
اشکال: یہ traceable نہیں ہے۔
جواب: یہ بات غلط ہے۔ یہ traceable ہے، ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس کی چین کو توڑنا ذرا مشکل عمل ہے۔
علماء کی آراء:
اس کی حلت و حرمت کے حوالے سے علماء کی آراء مختلف ہیں اور یہ اختلاف صرف علماء کے درمیان ہی نہیں پایا جاتا بلکہ معاشی سائنسدان، سیاسی ماہرین اور سافٹ ویئر انجینئرز کے مابین بھی اختلاف ہے۔ علماء کے ہاں یہ اختلاف بنیادی طور پر “زر” کی شرعی واصطلاحی تعریف کی وجہ سے ہے کہ یہ کرنسی “زر” بن سکتی ہے یا نہیں۔ کوئی چیز “زر” بن سکتی ہے یا نہیں اس حوالے سے چند صفات کا تذکرہ کیا جاتا ہے، اگر یہ صفات کسی چیز میں پائی جاتی ہیں تو اس پر “زر” کا اطلاق کیا جائے گا وگرنہ نہیں۔ یہ صفات درج ذیل ہیں:
1- وہ مال ہو۔
2- اس کی کوئی monetarily value ہو۔
3- اس کی کوئی legal حیثیت ہو۔
4- اس سے مبادلہ ہو سکے۔
5- یہ تقسیم کے قابل ہو۔
اب ذیل میں یہ آراء خلاصۃ پیش کی جا رہی ہیں:
1- یہ بالکل ناجائز ہے۔ دلیل یہ ہے کہ اس کی مجموعی اعتبار سے حقیقت مشکوک ہے، اور اس کو باقاعدہ حکومت کی پشت پناہی حاصل نہیں ہے، اور اس میں جوا، قمار بازی کا بازار گرم ہے، اور اس میں ثمن یا زر نام کی کوئی چیز نہیں یے، اور اس کرنسی کا کوئی حقیقی وجود بھی نہیں ہے، اور نا ہی اس کی ہمارے ملک میں کوئی قانونی حیثیت ہے۔
2- یہ کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے، جن ممالک میں یہ قانونا جائز ہے وہاں یہ بھی جائز قرار دی جائے گی۔ اس طرح اگر اس کا استعمال عام ہو جائے اور عرفا اسے قبول کر لیا جائے تب بھی یہ جائز قرار پائے گی۔
3- یہ في ذاته تو جائز ہے، لیکن کئی ایک اضافی وجوہات کی بنا پر یہ مجموعی طور پر ناجائز کہلائے گی۔ اس لیے کہ یہ مقاصد شریعت کی رو سے جائز نہیں قرار دی جا سکتی۔
4- یہ مطلقا جائز ہے۔
خلاصة الفتوى والرأي الراجح:
ناچیز درج بالا تمام تفاصیل کی روشنی میں کہتا ہے کہ کرنسی کا یہ کاروبار ناجائز وحرام ہے۔ اس پر چند ایک دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:
-اس کی ملکی سطح پر قانونا اجازت نہیں ہے۔ اور اتنے سال گزرنے کے بعد بھی یہ کاروبار قانونا grey area میں ہی ہے۔
-یہ ایک طرح کا فریب ہے کہ جس میں کسی قابل فروخت جنس “مبیع” کا استعمال نہیں کیا جاتا۔
-اس کی block chains قابل اعتماد نہیں۔
-اس میں marjin trading, future trading , اور option trading جیسے معاملات ہیں جو کہ کاروبار کی حرام وناجائز صورتیں ہیں۔
-اس میں leverage tokens پر اعتماد اور بھروسہ ہوتا ہے۔ اور ان tokens کی پشت پر future trading contracts ہوتے ہیں کہ جس میں سٹہ بازی، جوا اور سود کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔
-اس میں استعمال کیے جانے والے tokens کے پس پشت کبھی کوئی پراجیکٹ ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔ اور پھر اس چیز کو بھی مدنظر نہیں رکھا جاتا کہ یہ پراجیکٹ شرعا جائز ہیں یا حرام۔
-اس میں meme coins بھی استعمال ہوتے ہیں اور یہ ایسے coins ہیں کہ جن کا کوئی استعمال نہیں ہے ۔ لہذا ان پر مال متقوم کی تعریف صادق نہیں آتی لہذا ان کا استعمال بھی ناجائز ٹھہرا۔
-اس میں تعزیر مالی کا عنصر بھی ہے کہ جب کوئی validator اس میں staking کرتے ہوئے اس کرنسی کے network کو کسی قسم کا نقصان پہنچاتا ہے تو اس پر ایک اضافی جرمانہ عائد کیا جاتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ ہاں اگر یہ جرمانہ actual damage کے مطابق ہو تو پھر اس کے جواز کا پہلو نکلتا ہے ورنہ نہیں۔
لیکن اس کے برعکس چند ایک شرائط وقیود کے ساتھ cryptocurrency کے کاروبار کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں:
– اس کی قانونا اجازت ہو۔
– اس میں کوئی قابل فروخت جنس “مبیع” ہو۔
– اس کی بلاک چین قابل اعتماد ہوں، اور یہ انہی بلاک چینز پر کام کرے۔
– اس میں future, option, marjin trading کا کوئی معاملہ نا ہو۔ بلکہ جو بھی ہو سیدھا سادھا لین دین والا معاملہ یعنی spot trading ہو۔
– اس میں leverage tokens نا ہوں۔
– اس میں ناجائز عناصر موجود نا ہوں۔
– ہر ٹوکن کی پشت پر موجود کوئی نا کوئی پراجیکٹ ہو، اور یہ پراجیکٹ شرعا جائز ہو۔
– اس میں کسی قسم کا تعزیر مالی کا پہلو نا ہو اگر secuirty کے پیش نظر یہ پہلو رکھنا پڑے تو یہ actual damage کے مطابق ہو۔
والله تعالى أعلم والرد إليه أسلم، وهو حسبنا ونعم الوكيل.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ