سوال (2417)
سری اور جہری نمازوں کی حدیث سے دلائل سینڈ کر دیں۔
جواب
مغرب، عشاء اور فجر جھری نمازیں ہیں، باقی ظہر اور عصر سری نمازیں ہیں۔
مغرب نماز جھری ہونے کی دلیل:
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ہے کہ
” ”قَرَأَ فِي الْمَغْرِبِ بِالطُّورِ [صحيح البخاري: 765]
«آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب میں سورة الطور کی قرآت کی ہے»
عشاء نماز جھری ہونے کی دلیل:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ
”أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ فَقَرَأَ فِي الْعِشَاءِ فِي إِحْدَى الرَّكْعَتَيْنِ بِالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ” [صحيح البخاري: 767]
«آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ عشاء کی دو پہلی رکعات میں سے کسی ایک رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے والتين والزيتون پڑھی»
فجر نماز جھری ہونے کی دلیل:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“انْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ، فَقَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، قَالُوا: مَا حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا شَيْءٌ حَدَثَ فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ، فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَهُنَالِكَ حِينَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ وَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ [سورة الجن آية: 1] وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ”[صحيح البخاري: 773]
«نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ چند صحابہ ؓ کے ساتھ عکاظ کے بازار کی طرف گئے۔ ان دنوں شیاطین کو آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا تھا اور ان پر انگارے (شہاب ثاقب) پھینکے جانے لگے تھے۔ تو وہ شیاطین اپنی قوم کے پاس آئے اور پوچھا کہ بات کیا ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں آسمان کی خبریں لینے سے روک دیا گیا ہے اور (جب ہم آسمان کی طرف جاتے ہیں تو) ہم پر شہاب ثاقب پھینکے جاتے ہیں۔ شیاطین نے کہا کہ آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کی کوئی نئی وجہ ہوئی ہے۔ اس لیے تم مشرق و مغرب میں ہر طرف پھیل جاؤ اور اس سبب کو معلوم کرو جو تمہیں آسمان کی خبریں لینے سے روکنے کا سبب ہوا ہے۔ وجہ معلوم کرنے کے لیے نکلے ہوئے شیاطین تہامہ کی طرف گئے جہاں نبی کریم ﷺ عکاظ کے بازار کو جاتے ہوئے مقام نخلہ میں اپنے اصحاب کے ساتھ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ جب قرآن مجید انہوں نے سنا تو غور سے اس کی طرف کان لگا دئیے۔ پھر کہا، اللہ کی قسم! یہی ہے جو آسمان کی خبریں سننے سے روکنے کا باعث بنا ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کی طرف لوٹے اور کہا قوم کے لوگو! ہم نے حیرت انگیز قرآن سنا جو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے۔ اس لیے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے۔ اس پر نبی کریم ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی قل أوحي إلى (آپ کہیئے کہ مجھے وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہے) اور آپ پر جنوں کی گفتگو وحی کی گئی تھی»
ظہر اور عصر نماز سری ہونے کی دلیل :
عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، قُلْتُ لِخَبَّابٍ: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْنَا: مِنْ أَيْنَ عَلِمْتَ ؟ قَالَ: بِاضْطِرَابِ لِحْيَتِهِ. [صحيح البخاري : 777]
ابو معمر فرماتے ہیں کہ ہم نے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر میں قرآن مجید پڑھتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں! ہم نے پوچھا کہ آپ کو معلوم کس طرح ہوتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کے ہلنے سے۔
فضیلۃ العالم محمد فہد محمدی حفظہ اللہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجرکی نماز میں اور مغرب اور عشاء کی پہلی دو رکعتوں میں جہری تلاوت فرمائی اور ظہر اور عصر میں سری تلاوت فرمائی ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ نے اس پہ امت کا اجماع نقل کیا ہے.
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
” نماز فجر، مغرب، عشا اور جمعہ کی ابتدائی دونوں رکعات میں با آواز بلند تلاوت، جبکہ ظہر، عصر، مغرب کی تیسری، اور عشا کی تیسری اور چوتھی رکعت میں آہستہ تلاوت کرنا سنت ہے، اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع بھی ہے نیز اس پر صحیح احادیث بھی وافر مقدار میں موجود ہیں”[المجموع شرح المهذب3/389]
اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“ظہر اور عصر کی پوری نماز میں قراءت آہستہ آواز میں ہو گی، جبکہ مغرب اور عشا کی پہلی دو رکعات جبکہ فجر کی پوری نماز میں قراءت بلند آواز سے کی جائے گی۔۔۔؛ اس میں بنیادی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے، نیز یہ عمل سلف صالحین سے نسل در نسل چلا آ رہا ہے۔ تاہم اگر کوئی سری نماز میں جہری تلاوت کر لے یا جہری نماز میں سری تلاوت کر لے تو اس نے سنت کو ترک کیا، البتہ اس کی نماز صحیح ہو گی” [المغنی 2/270]
اب اس دعوے کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے دیکھیں تو ہمیں ہر نماز کے بارے میں مختلف احادیث ملتی ہیں اور صحابہ نے جیسے اور جس جس نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جہری قراءت کرتے دیکھا انہوں نے اس میں جہری قراءت کی اور جس میں صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سری دیکھا اس میں انہوں نے بھی سرا ہی پڑھا.
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہر نماز میں تلاوت ضرورت کی جاتی ہے، تاہم جس نماز میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلاوت سنائی ہم تمہیں بھی اس نماز میں سناتے ہیں، اور جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آہستہ تلاوت کی تو ہم بھی آہستہ تلاوت کرتے ہیں” [بخاری: 738 مسلم: 396]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ جو سلسلہ نسل در نسل چلتا آرہا ہے یہ وہی ہے جو صحابہ رضی اللہ عنھم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیا اور پھر نسل در نسل ہم تلک پہنچا
اب ذرا وہ احادیث بھی دیکھ لیتے ہیں کہ جن میں الگ الگ ہر نماز میں قراءت کی کیفیت کا بیان ہے سری اور جہری کے لحاظ سے، ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت آہستہ آواز میں کرنے کے دلائل درج ذیل ہیں:
خباب رضی اللہ عنہ ایک سائل کے سوال: “کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ظہر اور عصر کی نماز میں تلاوت کرتے تھے؟” کے جواب میں کہتے ہیں: “ہاں تلاوت کرتے تھے” اس پر ان کے شاگردوں نے کہا: “آپ کو اس کا کیسے علم ہوتا تھا؟” تو آپ نے کہا: ” آپ کی داڑھی کی حرکت سے ” [بخاری:713]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظہر عصر کی چاروں رکعتوں میں سری قراءت فرماتے تھے اتنی وضاحت اس حدیث میں موجود ہے کہ صحابہ کو آپ کی داڑھی مبارک کی حرکت سے قراءت کا علم ہوا نہ کہ آواز سے
اسی طرح فجر کے بارے میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جس میں ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تلاوت جنوں نے سنی تو اس میں یہ بھی ہے کہ: (آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت اپنے صحابہ کرام کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے، تو جب جنوں نے قرآن سنا تو کان لگا کر غور سے سننے لگے)
[بخاری: 739مسلم:449]
اسی طرح براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عشا کی نماز میں سورت التین پڑھتے ہوئے سنا، میں نے آپ سے خوبصورت آواز کسی کی نہیں سنی) [بخاری: 733مسلم:464]
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: ( میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز مغرب میں سورت طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا) [بخاری:735مسلم:463]
ان احادیث میں سری اور جہری نمازوں کی تفصیل آگئ ہے۔
فضیلۃ العالم ڈاکٹر ثناء اللہ فاروقی حفظہ اللہ