سوال (5184)

ایک شخص نے بینک میں بطور حفاظت پیسے رکھ لیے ہیں، اب یہ شخص کہتا ہے کہ جو پیسے مجھے اضافی ملیں گے، ان کیا کروں؟

جواب

ہمارے اس بھائی کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے اپنا بینک اکاؤنٹ تبدیل کرے۔ اس وقت اس نے سیونگ اکاؤنٹ کھول رکھا ہے، جس پر وہ سود حاصل کر رہا ہے، اور یہ شرعاً جائز نہیں ہے، بینک سے اگر ضرورت ہو تو صرف کرنٹ اکاؤنٹ تک محدود رہا جائے، اور اس میں بھی صرف لین دین کیا جائے، رقم کو جمع نہ رکھا جائے، کیونکہ اگرچہ کرنٹ اکاؤنٹ پر بینک آپ کو سود نہیں دیتا، لیکن وہ رقم استعمال کر رہا ہوتا ہے، اور یہ معاملہ بھی شرعی اعتبار سے سنگین ہے۔ لہٰذا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ
سیونگ اکاؤنٹ کو بند کیا جائے اور کرنٹ اکاؤنٹ اختیار کیا جائے۔
اب سوال یہ ہے کہ جو سود کی رقم آ چکی ہے،
اس کا کیا کیا جائے؟تو دیکھیں، جذبات میں آ کر یہ کہنا کہ اسے آگ میں جلا دو، پھینک دو، تباہ کر دو” یہ نہ شرعاً جائز ہے، نہ قانوناً، اسی طرح یہ فتوٰی بھی درست نہیں.
جو بعض جگہوں سے سننے کو ملتا ہے کہ
“یہ گندا پیسہ ہے، اسے گندی جگہ لگا دو، مثلاً مسجد کے واش رومز بنوا دو” یہ بھی شرعی اصولوں کے خلاف ہے۔
بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ:
1. بغیر کسی نیتِ ثواب کے یہ رقم ایسے شخص کو دی جائے جو غیر مسلم ہو،
مگر فتنہ انگیز، محارب یا اسلام دشمن نہ ہو۔
2. یا ایسے مسلمان کو دی جائے جو سود میں پھنس چکا ہو، نادانی یا لاعلمی میں، اور اب وہ سچی توبہ کرنا چاہتا ہو، اور یہ چاہتا ہو کہ کسی طرح اس سودی بوجھ سے نکلے۔
3. یا کسی پر ظلم کی بنیاد پر کوئی جرمانہ، قرض یا زبردستی کا بوجھ ڈال دیا گیا ہو،
اور وہ واقعی مظلوم ہو
تو ایسی صورت میں بھی یہ رقم اسے دی جا سکتی ہے۔
4. یا عوامی فلاحی کام جیسے سڑک، سیوریج، نالی، پائپ، تعمیراتی کام، وغیرہ میں یہ مال میٹیریل کی صورت میں خرچ کیا جا سکتا ہے، مثلاً سیمنٹ، بجری، کنکریٹ، پائپ وغیرہ خرید کر دے دیا جائے۔
تو یہ چند جائز صورتیں ہیں جن میں اس ناجائز مال سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔
لیکن یاد رکھیں، اس رقم سے کوئی نیکی یا ثواب کی نیت نہ رکھی جائے
اور نہ ہی مساجد یا دینی مقامات پر اسے استعمال کیا جائے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ