’’سنو! میرے نبی ﷺ کے پاس شور نہ کرو۔‘‘

✿۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ﴾.

’’اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو جیسے تم ایک دوسرے سے بولتے ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کی خبر بھی نہ ہو۔‘‘ [سورة الحجرات : ٢]
✿۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

«فَكَانَ عُمَرُ بَعْدُ إِذَا حَدَّثَ النَّبِيَّ ﷺ بِحَدِيثٍ حَدَّثَهُ كَأَخِي السِّرَارِ لَمْ يُسْمِعْهُ حَتَّى يَسْتَفْهِمَهُ».

’’اس آیت کے نازل ہونے کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، نبی کریم ﷺ کے ساتھ سرگوشی میں اتنی آہستہ آہستہ بات کرتے کہ آپ صاف سن بھی نہ سکتے تھے اور دوبارہ پوچھنا پڑتا تھا ۔‘‘ (صحیح بخاري : ٤٨٤٥)
✿۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

«يَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ لَا أُكَلِّمُكَ إِلَّا كَأَخِي السِّرَارِ حَتَّى أَلْقَى اللَّهَ».

’’اے اللہ کے رسول ﷺ! اب میں وفات تک آپ سے اس طرح بات کروں گا جیسے بندہ کان میں سرگوشی کرتا ہے۔‘‘
(المصنف لابن أبي شيبة – ت الحوت : ٧/‏٩٢ وسنده مرسل، ورُوي متصلا عند البزار (٥٦) وغيره ولم يصح)
✿۔ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

«كُنْتُ قَائِمًا فِي المَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا – أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ – قَالاَ: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ: «لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ البَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا، تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ».

’’میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں کوڑے لگاتا یعنی سزا دیئے بغیر نہ چھوڑتا۔ تم رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟‘‘ (صحیح بخاري : ٤٧٠)
✿۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ اخْتَلَفُوا فِي اللَّحْدِ وَالشَّقِّ، حَتَّى تَكَلَّمُوا فِي ذَلِكَ، وَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمْ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تَصْخَبُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَيًّا وَلَا مَيِّتًا، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، فَأَرْسَلُوا إِلَى الشَّقَّاقِ، وَاللَّاحِدِ جَمِيعًا، فَجَاءَ اللَّاحِدُ، «فَلَحَدَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، ثُمَّ دُفِنَ ﷺ».

جب رسول اللہ ﷺ فوت ہوئے تو صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہو گیا کہ آپ کی قبر لحد یعنی بغلی ہو گی یا شق یعنی سیدھی ہو گی، لوگوں میں بحث و تکرار ہونے لگا کہ آوازیں بلند ہو گئیں، عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : ’’سنو! رسول اللہ ﷺ کے پاس شور نہ کرو، خواہ آپ کی زندگی میں ہو یا وفات کے بعد ہی ہو۔‘‘ (سنن ابن ماجه : ١٥٥٨، حديث حسن)
✿۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

لَا يَنْبَغِي رَفْعُ الصَّوْتِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ﷺ حَيًّا أَوْ مَيِّتًا».

‘‘رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں یا آپ کی وفات کے بعد آپ کے پاس آواز بلند کرنا بالکل بھی مناسب نہیں۔‘‘
(بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث ٢/‏٨٨٥، الشريعة للآجري : ١٨٤٤، فيه عبد العزيز بن أبان وهو متروك وعبد الرحمن بن أبي بكر بن أبي مليكة ضعيف، وانظر : سنن الترمذي : ١٠١٨)
⇚۔ امام مالک رحمہ اللہ (١٧٩هـ) نے خلیفہ ابو جعفر منصور کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’اپنی آواز کو رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں بلند نہ کریں۔‘‘ اللہ تعالی نے کچھ لوگوں کو اَدب سکھاتے ہوئے فرمایا تھا : ’’اپنی آوازیں نبی ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو اور نہ ہی اس کے سامنے اس طرح اونچی آواز سے بولو۔‘‘ (الحجرات : ٢)
کچھ کی تعریف یوں کی تھی: ’’جو لوگ اللہ کے رسول کے حضور اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے جانچ لیا ہے۔‘‘ (الحجرات: ٣)
اور بعض کی ان الفاظ میں مذمت کی تھی:
’’جو لوگ آپ ﷺ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر بے عقل ہیں۔‘‘ (الحجرات : ٤) ’’اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد بھی آپ کی حرمت اسی طرح ہے جس طرح آپ کی زندگی میں تھی۔‘‘ (الشفا للقاضي عياض : ٢/ ٤١، وآخر هذه الحكاية منكر جدا، فلهذا قال ابن تيمية :

وَهُوَ كَذِبٌ عَلَى مَالِكٍ. (منهاج السنة : ٧/ ١٣١))

⇚امام ابو جعفر النحاس رحمہ اللہ (٣٣٨هـ) فرماتے ہیں:
وعمل جماعة من العلماء على أن كرهوا رفع الصوت عند قبر النبيّ ﷺ وبحضرة العلماء وفي المساجد، وقالوا: هذا أدب الله جلّ وعزّ ورسوله ﷺ.
’’علماء کی ایک جماعت نے قبر نبوی ﷺپر، مساجد میں اور علماء کی موجودگی میں آواز بلند کرنے کو ناپسند کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کا اَدب ہے۔‘‘ (إعراب القرآن : ٤/ ١٣٩)
⇚۔ علامہ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ (٤٣٧هـ) نقل کرتے ہیں:

قد كره جماعة من العلماء رفع الصوت عند قبر رسول الله ﷺ وبحضرة العلماء اتباعًا لأدب الله وتعظيمًا لرسول الله بعد موته كما كان يجب في حياته، وتشريفًا للعلم، إذ العلماء ورثة الأنبياء.

علماء کی ایک جماعت نے اَدب الہی کی اتباع، وفاتِ نبوی کے بعد آپ کی تعظیم کے اسی طرح واجب ہونے کی بنیاد پر کہ جس طرح آپ کی زندگی میں واجب تھی، رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک کے پاس اور علم کے شرف کا لحاظ رکھتے ہوئے علماء کی موجودگی میں آواز اونچی کرنے کو ناپسند کیا ہے کیوں کہ علماء، انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ (الهداية إلى بلوغ النهايه : ١١/ ٦٩٧٧ )
یہی بات علامہ ابن الفرس (أحكام القرآن : ٣/‏٤٨٨)، علامہ ابن عطیہ (المحرر الوجيز : ٥/ ١٤٥) اور علامہ قرطبی (الجامع لأحكام القرآن : ١٦/‏٣٠٧) وغیرہم رحمہم اللہ نے نقل کی ہے۔
⇚۔ امام حماد بن زيد رحمہ اللہ (١٧٩هـ) بیان کرتے ہیں:

كُنَّا عِنْدَ أَيُّوبَ فَسَمِعَ لَغَطًا، فَقَالَ: «مَا هَذَا اللَّغَطُ؟ أَمَا بَلَغَهُمْ أَنَّ رَفْعَ الصَّوْتِ عِنْدَ الْحَدِيثِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ كَرَفْعِ الصَّوْتِ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ».

’’ہم امام ایوب سختیانی رحمہ اللہ (١٣١هـ) کے پاس تھے کہ انہوں نے شور سنا تو فرمانے لگے کہ یہ کس چیز کا شور ہے؟ کیا انہیں یہ بات معلوم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے پاس آواز بلند کرنا آپ ﷺ کی زندگی میں آپ سے اپنی اواز اونچی کرنا ہے۔‘‘ (الجامع لأخلاق الراوي للخطيب : ٣٣٢ وسنده صحیح)
⇚امام حماد بن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

«أَرَى رَفْعَ الصَّوْتِ عَلَيْهِ بَعْدَ مَوْتِهِ كَرَفْعِ الصَّوْتِ عَلَيْهِ فِي حَيَاتِهِ، إِذَا قُرِئَ حَدِيثٌ وَجَبَ عَلَيْكَ أَنْ تُنْصِتَ لَهُ كَمَا تُنْصِتُ لِلْقُرْآنِ».

’’میری رائے یہ ہے کہ آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ پر آواز بلند کرنا آپ کی زندگی میں آواز بلند کرنے کی طرح ہی ہے، جب حدیث مبارکہ پڑھی جائے تو آپ پر اسی طرح خاموش ہونا واجب ہے جس طرح آپ قران مجید کے لیے خاموش ہوتے ہیں۔‘‘ (ذم الكلام وأهله للهروي : ٥/‏١٦١ وسنده صحیح)
⇚سلیمان بن حرب رحمہ اللہ (٢٢٤هـ) بیان کرتے ہیں :

كَانَ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ إِذَا حَدَّثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَسَمِعَ النَّاسَ يَتَكَلَّمُونَ كَفَّ، وَيَقُولُ: «أَخَافُ أَنْ نَدْخُلَ فِي قَوْلِهِ: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ﴾ [الحجرات: ٢] قَالَ سُلَيْمَانُ: فَذَكَرْتُهُ لِابْنِ عُيَيْنَةَ فَأَعْجَبَهُ».

’’امام حماد بن زید رحمہ اللہ رسول اللہ ﷺ کی احادیث بیان کرتے ہوئے اگر لوگوں کو باتیں کرتے سنتے تو رُک جاتے اور فرماتے کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہم اس آیت کے مصداق نہ بن جائیں : ’’اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کریم ﷺ کی آواز سے بلند نہ کرو۔‘‘ سلیمان کہتے ہیں، میں نے یہ بات امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کو بتائی تو انہوں نے اسے پسند کیا۔‘‘ (تعظيم قدر الصلاة للمروزي : ٢/‏٦٧١ وسنده صحیح)
⇚علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (٥٤٣هـ) فرماتے ہیں :

حُرْمَةُ النَّبِيِّ ﷺ مَيِّتًا كَحُرْمَتِهِ حَيًّا، وَكَلَامُهُ الْمَأْثُورُ بَعْدَ
مَوْتِهِ فِي الرِّفْعَةِ مِثْلُ كَلَامِهِ الْمَسْمُوعِ مِنْ لَفْظِهِ؛ فَإِذَا قُرِئَ كَلَامُهُ وَجَبَ عَلَى كُلِّ حَاضِرٍ أَلَّا يَرْفَعَ صَوْتَهُ عَلَيْهِ، وَلَا يُعْرِضَ عَنْهُ، كَمَا كَانَ يَلْزَمُهُ ذَلِكَ فِي مَجْلِسِهِ عِنْدَ تَلَفُّظِهِ بِهِ، وَقَدْ نَبَّهَ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى دَوَامِ الْحُرْمَةِ الْمَذْكُورَةِ عَلَى مُرُورِ الْأَزْمِنَةِ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا﴾ [الأعراف: ٢٠٤]. وَكَلَامُ النَّبِيِّ ﷺ مِنْ الْوَحْيِ وَلَهُ مِنْ الْحُرْمَةِ مِثْلُ مَا لِلْقُرْآنِ إلَّا مَعَانِي مُسْتَثْنَاةٌ، بَيَانُهَا فِي كُتُبِ الْفِقْهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.

’’نبی کریم ﷺ کی حرمت وفات کے بعد بھی اسی طرح ہے جس طرح آپ کی زندگی میں تھی، آپ کی وفات کے بعد آپ کی منقول احادیث کی وہی عظمت ہے جو آپ کی زبانِ مبارک سے نکل کر سنائی دینے والے الفاظ کی عظمت تھی۔ جب آپ ﷺ کی حدیث پڑھی جائے تو جو بھی بندہ وہاں پر حاضر ہو اس پر واجب ہے کہ اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور نہ ہی اس سے اعراض کرے بالکل اسی طرح جس طرح آپ ﷺ کی مجلس میں اپ کے الفاظ کے متعلق یہ لازم تھا اور اللہ تعالی نے زمانہ گزر جانے پر بھی اس حرمت کے دوام پر تنبیہ کی ہے جیسا کہ فرمایا اور ’’جب قران مجید پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو‘‘ اور نبی کریم ﷺ کا کلام بھی وحی ہے اور اس کی بھی ویسی ہی حرمت ہے جس طرح قران مجید کی حرمت ہے سوائے چند مستثنی معانی کے کہ جن کا بیان کتب فقہ میں ہے۔‘‘ واللہ أعلم۔
(أحكام القرآن لابن العربي ط العلمية : ٤/‏١٤٦)
(المسجد النبوي، ٢١ ربيع الأول ١٤٤٦هـ، ٢٤ ستمبر ٢٠٢٤ء)

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: ہم ایک آزاد قوم کی حیثیت سے!