[ “تدبر” کے نام پر محترمہ نمرہ احمد کی سورۃ الملک میں معنوی تحریفات کا جائزہ ]

اس تحریر کے بنیادی تین حصے ہیں، پہلا حصہ ایک مختصر تمھید ہے، دوسرا حصہ اختصار کے ساتھ نمرہ احمد کے سورۃ الملک پر تدبر کے نام پر تحریفات کے نمونوں پر مشتمل ہے، جبکہ تیسرا حصہ ایک درد مندانہ نصیحت پر مشتمل ہے۔

تمھید :

قرآن مجید کے الفاظ کو تو محفوظ اور مقدس سمجھنا مگر اس کے معانی اور مفاہیم کو ایک شاہراہ عام تصور کرنا کہ جو چاہے جیسے چاہے اس میں داخل ہو اور جیسے چاہے اس کو روند کر چلا جائے، یہ بہت ہی خطرناک غلطی اور دینی علوم سے ناواقفیت کی علامت ہے۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” إِنَّ مِنْكُمْ مَنْ يُقَاتِلُ عَلَى تَأْوِيلِهِ كَمَا قَاتَلْتُ عَلَى تَنْزِيلِهِ “. قَالَ : فَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ. فَقَالَ : ” لَا، وَلَكِنَّهُ خَاصِفُ النَّعْلِ “. وَعَلِيٌّ يَخْصِفُ نَعْلَهُ.
(مسند أحمد : ١١٢٨٩ وصححه الألباني في الصحيحة : ٢٤٨٧)

(مفہوم: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا کہ تم میں وہ شخص بھی ہے جو قرآن مجید کے درست معانی کی خاطر قتال کرے گا جس طرح میں نے اس کے نزول کو منوانے کی خاطر قتال کیا تھا۔ سیدنا ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما نے یہ سمجھا کہ اس سے مراد ہم ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، بلکہ یہ وہ ہے اپنی جوتی مرمت کر رہا ہے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی جوتی کی مرمت کر رہے تھے۔)

اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں لیکن ہمارا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ اس امت میں جنم لینے والی سب سے پہلی گمراہی یعنی خوارج کا گروہ جس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا، ان کا صحابہ کرام سے قرآن مجید کے الفاظ کے اللہ تعالی کی جانب سے نازل شدہ ہونے پر کوئی اختلاف نہیں تھا، بلکہ اصل اختلاف آیات کے فہم اور تشریح کا تھا جس میں غلطی کی وجہ سے وہ اس بڑی گمراہی کا شکار ہوئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم کے لیۓ بہرحال کوئی ایسا اصول اور ضابطہ تو ہونا چاہیئے کہ جس کی بنا پر “درست اور غلط” میں فرق کیا جا سکے۔ اور یہ بھی کہ قران مجید کے جس طرح الفاظ من جانب الہی ہیں اسی طرح اس کے مفاہیم اور معانی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے سکھائے ہیں جن کو آپ نے امت کو منتقل کیا ہے۔
جب یہ معلوم ہو گیا کہ قران مجید “صرف الفاظ” کا نام نہیں بلکہ الفاظ اور ان کے وہ معانی جو اللہ تعالی کی مراد ہیں، ان دونوں کے مجموعے کا نام ہے، تو معلوم ہوا کہ جس طرح قران مجید کے الفاظ کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح اس کے درست معانی کی حفاظت بھی ضروری ہے، اور یہ اس امت میں اہل علم کی ایک بنیادی ذمہ داری ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

«يَحْمِلُ هَذَا الْعِلْمَ مِنْ كُلِّ خَلَفٍ عُدُولُهُ يَنْفُونَ عَنْهُ تَحْرِيفَ الْغَالِينَ وَانْتِحَالَ الْمُبْطِلِينَ وَتَأْوِيلَ الْجَاهِلين» (السنن الكبرى للبيهقي : ١٠/ ٢٠٩، البدع لابن الوضاح : ١، وحسنه الألباني وغيره)

(اس علم کو ہر بعد والوں میں سے عادل لوگ (پچھلوں سے لے کر اپنے سینوں میں) اٹھاتے رہیں گے، اور اس علم سے، غالی لوگوں کی تحریفات کو، باطل پرست لوگوں کے جھوٹوں کو، اور جاہل لوگون کی فاسد تاویلات کو دور کرتے رہیں گے۔)

سورۃ الملک میں معنوی تحریف :

محترمہ نمرہ احمد صاحبہ کا سورۃ الملک پر “تدبر” چودہ اسباق پر مشتمل ہے جس کے تقریبا 338 صفحات ہیں۔ مجھ سے ایک بہن نے اس کورس کے متعلق سوال کیا جس پر میں نے اس کے مواد کا تسلی سے اور بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ جس کے نتیجے میں مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ کی یہ سعی نامشکور سوائے “تقوّل علی اللہ” یعنی اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنے، اور قران مجید کی معنوی تحریف کے اور کچھ بھی نہیں۔
اور جب کوئی شخص بغیر بنیادی سی اہلیت کے کسی کام میں دخل اندازی کرے تو پھر نتیجہ تو یہی نکلتا ہے۔
جس طرح بغیر لائسنس کے ایک بچے کا سڑک پر گاڑی دوڑانا بذات خود جرم ہے، چاہے ابھی اس نے کسی کو روندا نا ہو۔ اور جس طرح ایک قصائی کا سرجریاں کرنا فی ذاتہ جرم ہے چاہے ابھی کوئی مریض مارنے کا موقعہ نا ملا ہو، اسی طرح بغیر اہلیت کے، اور ہر قسم کے اصول قاعدے ضابطے حتی کہ عربی زبان سے آزاد ہو کر قران مجید کو تختہ مشق بنانے والا بھی مجرم ہے، چاہے بظاہر اس کی کوئی بات اندازے سے درست ہی کیوں نا ہو جائے۔
جیسا کہ ترمذی کی حدیث میں ضعیف سند کے ساتھ مرفوعاً بھی روایت کیا گیا ہے، اور صحابہ کرام سے بھی اس طرح کے اقوال موقوفا منقول ہیں نیز امت کے علماء کے ہاں یہ مستقل قاعدہ ہے جس کی شریعت کی دیگر نظائر تائید کرتی ہیں۔ تفصیل کا یہ محل نہیں ہے۔

اسی لیۓ ذیل میں چند تحریفات بطور نمونہ ذکر کرنے جا رہا ہوں جن سے مقصود صرف ایک جھلک دکھانا ہے کہ کس طرح “تدبر” کی شرعی اور علمی اصطلاح کی آڑ میں قران مجید کے معانی کو بدلا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ میں نے اس پوسٹ میں صرف وہ مثالیں ذکر کی ہیں جو ہر خاص وعام سمجھ سکے۔ وہ تحریفات جن کو سمجھنا عربی جاننے والے اور علماء کے لئے ہی ممکن ہے، ان کو میں یہاں ذکر نہیں کر رہا۔

سورۃ الملک آیت نمبر 3

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ

محترمہ اس آیت میں ذکر کردہ آسمانوں سے مراد لیتی ہیں “زندگی کا آسمان” اور طباقا سے مراد لیتی ہیں “زندگی کے phases”

فرماتی ہیں:

“آسمان کیا ہے؟ آسمان اللہ کا ڈیزائن ہے، جس کے اوپر آپ کی زندگی کو بنایا گیا ہے۔” (12/3)

(ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت فارجع البصر ھل تری من فطور)

اس آیت سے مراد لیتی ہیں، کہ تمہیں اپنی زندگی کے آسمان یعنی ڈیزائن میں بہت نقائص اور عیوب نظر آتے ہیں نا:

“لیکن جب دوسری دفعہ آپ اپنی زندگی کو دیکھیں گے تو آپ کو اس میں کوئی تفاوت نظر نہیں آئے گا” (3/18)

تبصرہ : اس آیت میں سبع سماوات سے مراد انسان کی زندگی لینا اور طباقا سے مراد انسانی زندگی کے احوال لینا، اس پر اس آیت میں کون سا لفظ دلالت کرتا ہے؟ کیا “تدبر” کا یہ معنی ہے کہ آیت کے لغوی معنی کے ساتھ اس کا کوئی تعلق ہی نا ہو؟ یہ تحریف معنوی نہیں تو اور کیا ہے؟

آیت نمبر 5

وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَاهَا رُجُومًا لِّلشَّيَاطِينِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ

اس آیت میں محترمہ نے السماء الدنیا سے مراد “آپ کی زندگی کا حالیہ فیز” اور مصابیح سے مراد “اللہ تعالی کا ذکر” لیا ہے۔

میں محترمہ فرماتی ہیں:
“اللہ تعالیٰ بلاوجہ بار بار ایک اسی نیلے آسمان کا ذکر نہیں کرتا جسے ہم صبح وشام دیکھتے ہیں، ہر دفعہ آسمان کا ذکر ایک نیا معنی لیۓ ہوتا ہے، بس ہم ٹھہرتے سمجھتے نہیں ہیں” (2/4)
سبق نمبر چار کے صفحہ انیس پر تو صراحتا لفظی معنی کا انکار کرتے ہوئے کہتی ہیں:
“میرے پاس آپ کو بتانے کے لیۓ ایک بہت دلچسپ اینگل ہے، ہم نے کیا پڑھا تھا گذشتہ سبق میں، کہ آسمان، آسمان نہیں ہے، آسمان ہماری زندگی ہے، یہ ایک ایسا فارمولا ہے جس کو اگر آپ اس آیت پر لگائیں تو ایک نیا معنی کھل جاتا ہے” (4/19)
السماء الدنیا کا معنی کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
“سو اب جو آپ کا حال چل رہا ہے، آپ کا موجودہ فیز، یہ ہے آپ کا آسمان دنیا” (4/20)
مصابیح سے مراد، ایک لمبا چوڑا اور بے سروپا فلسفہ لکھ کر آخر میں فرماتی ہیں: “مصباح سے مراد اللہ کا ذکر ہے”

تبصرہ: خلاصہ یہ ہے کہ سماوات طباقا سے مراد آپ کی زندگی کے مختلف احوال ہیں، ما تری فی خلق الرحمن من تفاوت سے مراد آپ کی زندگی کا بے عیب ہونا ہے، اور السماء الدنیا یعنی آپ کی زندگی کا حالیہ فیز جو ہے اللہ نے اس کو مصباح یعنی اپنے ذکر سے مزین کیا ہے۔ مجھے تو باطنی زنادقہ کی “تفاسیر” یاد آ گئیں۔ خیر آگے چلیں۔

آیت نمبر 15

هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ ۖ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ

اب چونکہ سبع سماوات طباقا کو انسانی زندگی کے مراحل قرار دے چکی تھیں، چنانچہ یہاں پر اب زمین کے معانی میں تحریف کرتے ہوئے فرماتی ہیں :

“میرے خیال میں آسمان ہماری زندگی کا وہ حصہ ہیں جس کو ہم تبدیل نہیں کر سکتے”
اور “زمین زندگی کا وہ حصہ ہے جس پر آپ کا کنٹرول ہے”

تبصرہ : یہ بدترین معنوی تحریف کی ایک اور مثال ہے جس میں الارض اور ذلولا کے لغوی معنی ہی کو چھوڑ دیا گیا ہے۔
نیز یہ پورے کا پورا کورس جا بجا “میرے خیال میں”، “مجھے لگتا ہے” ، “میں یہ سمجھتی ہوں” سے بھرا ہوا ہے،

آیت نمبر 16

أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ أَن يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَمُورُ

میں (خسف) کا معنی بیان کرتے صریح تحریف معنوی کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
“ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب گناہگاروں کو ایک ہی ھلے میں زمین میں نہیں دھنساتا، ہماری امت کو ایک ساتھ سزا نہیں ملے گی، ہمیں انفرادی سزائیں ملیں گی، اور انفرادی تنبیہ ملے گی، آپ نے اپنے اردگرد کسی گناہ گار کو زمین میں دھنستے نہیں دیکھا ہو گا، زلزلے اور ایکسیڈنٹ الگ چیز ہیں، ان میں نیک وبد سب مرتے ہیں، اور ان میں مرنے والے کو جج نہیں کرنا چاہئے، اس لیۓ ہم خسف کا دوسرا معنی لیں گے۔ یہ زمین میں دھنسنا فرش کے پھٹ جانے سے اندر چلا جانا نہیں ہے، یہ ہے ذلت ورسوائی، گرہن لگنا، بھوکا ہونا” ( سبق 8، صفحہ 7)

(فاذا ھی تمور)
کے متعلق لکھتی ہیں:
” وہ ذلیل ورسوا ہو کر بھی امن میں نہیں رہے گا، وہ اپنا حسن یا رزق کھو کر بھی ساکت نہیں بیٹھے گا،بلکہ وہ بدترین حالات کی گردش میں رہے گا، حالات اس کو گھماتے رہیں گے، کبھی زندگی ایک طرف پھینکے گی کبھی دوسری طرف” ( سبق 8 صفحہ 10)

آیت نمبر 19

أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ ۚ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمَٰنُ ۚ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ بَصِيرٌ

کے متعلق فرماتی ہیں:
“آپ نے نوٹ کیا سورۃ الملک آسمان اور زمین کی مثال سے شروع ہوئی تھی، اور پھر اس میں ستاروں کی مثال آئی تھی، ہم نے ہر لفظ پہ تدبر کیا تھا، اگر آسمان زمین ستارے یہ سب آپ کی زندگی کے کسی فیز کی نمائندگی کر سکتے ہیں تو پرندے کیوں نہیں؟ قرآن کے الفاظ صرف الفاظ نہیں ہوتے، پرندہ صرف پرندہ نہیں ہوتا۔ طیر قسمت کو بھی کہتے ہیں، ۔مستقبل کا شگون۔۔۔۔وہ جو پرندے کو ہوا میں تھامتا ہے وہ آپ کے مستقبل کو بھی تھام لے گا” ( سبق 9 صفحہ 17)

آیت نمبر: 23

قُلْ هُوَ الَّذِي أَنشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۖ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ

“یہاں پیدا کرنے کیلیے نشاء (ن ش ا) کا لفظ آیا ہے۔ یہ کہتے ہیں “رات کی اولین گھڑیوں کو، جوانی کو، نوجوان نسل کو، کچھ ایسا جو بڑھتا جائے” اسی سے نشونما کا لفظ نکلا ہے!”
“آنکھیں، کان اور دل تو اس نے پیدا ہونے والے کے بنا دیے پھر “نشاء” کے بعد اسکا ذکر اس لیے کیا کیونکہ اس میں بڑھنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ کان اور آنکھیں بڑھتے نہیں لیکن یہ سب نشوونما پاتے ہیں
آپ کی آنکھ بچپن میں جو دیکھتی تھی اب نہیں دیکھتی اسکی نظر بدلتی جارہی ہے۔ آپ کے کان ہمیشہ سے وہ نہیں سنتے جو اب سن رہے ہیں۔”
“ہم ہر روز تبدیل ہوتے ہیں اور یہ نشوونما اللہ کرتا ہے لیکن اس کیلیے ہم اسکا شکر ادا نہیں کرتے۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ “ہم” ہیں جس نے اپنی ذات کو improve کیا ہے۔”
(سبق 12 صفحہ 6, 7, 8, 9)

تبصرہ : اس آیت میں بنیادی طور پر انہوں نے اپنے عربی زبان کے انتہائی ناقص اور سطحی فہم کا استعمال کرتے ہوئے انشأ کا لغوی معنی کو ڈکشنری میں دیکھا اور اس کے معانی میں سے ایک معنی منتخب کیا کہ اس میں کسی چیز کے بڑھنے اور پھیلنے کا معنی پایا جاتا ہے۔ اب چونکہ علم الصرف، ابواب، خاصیات ابواب وغیرہ، ان سب تکلفات کا ان کے یہاں کوئی گذر نہیں، چنانچہ انہوں نے اس آیت کو “انسان کی گروتھ، شہرت میں اضافہ وغیرہ اور اس کے نتیجے میں شکر نا ادا کرنا” سے تعبیر کیا ہے۔

آیت نمبر: 25

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

“یہاں “کافر کا لفظ نہیں آیا” یہ ترجمے و تفاسیر میں صرف سمجھانے کیلیے استعمال ہوتا ہے ورنہ یہاں صرف “وہ” کہا گیا ہے۔
وہ میں ہر وہ انسان شامل ہے “جو اللہ سے یا اللہ والوں سے پوچھتا ہے کہ کب آئے گا وہ وقت جب اسے انصاف ملے گا؟”
“ہم بار بار ایک ہی گناہ کرتے ہیں۔ اس سائیکل میں پھنسے ہوئے ہم یہ سوچتے ہیں کہ اگر یہ گناہ واقعی اتنا بڑا ہوتا تو اب تک اللہ کا عذاب آچکا ہوتا۔ لوگ اس سے بڑے بڑے گناہ کرتے ہیں اور خوش و خرم رہتے ہیں ہمارے ایک گناہ پر اللہ ہمیں کیوں پکڑے گا؟
اب بتائیں کہ یہ آیت ہمارے بارے میں ہوئی یا کفار مکہ کے بارے میں؟”
(سبق 13 صفحہ 3، 4)

تبصرہ : اس آیت میں کمال جرات سے وہ آیت جو قیامت کی تکذیب کرنے والوں کے متعلق اور ان کے اس سوال سے متعلق تھی کہ قیامت کب آئے گی، اسے مسلمانوں کے گناہ گاروں پر فٹ کر دیا ہے۔ سب سے پہلے تو یقولون کے متعلق یہ انتہائی بھونڈی بات کہی کہ یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ کافر ایسا کہتے ہیں بلکہ صرف یہ کہا گیا ہے کہ “وہ” کہتے ہیں۔ ابن کثیر کہتے ہیں : “ثم قال مخبرا عن الکفار المنکرین المعاد المستبعدین وقوعہ” یعنی یہ آیت اللہ تعالی نے ان کفار کے بارے میں خبر دی ہے کہ جو قیامت کا انکار کرتے ہیں اور اس کے وقوع کو ناممکن سمجھتے ہیں۔ اور متی ھذا الوعد سے مراد قیامت ہے جس پر “ھذا” بھی دلالت کر رہا ہے اور الوعد کا ال بھی۔ اور اس سے مراد پچھلی آیت میں ذکر کردہ “والیہ تحشرون” ہے۔ لیکن کمال جسارت سے اسے عام مسلمانوں پر فٹ کر دیا کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کب ہمیں انصاف ملے گا اس زندگی میں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آیت نمبر: 26

قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

“اللہ نے آپ سے صرف عذاب کا وعدہ نہیں کیا۔ یہاں وعدہ لکھا ہے عذاب یا ثواب نہیں! ہم سب اللہ کی طرف سے کسی وعدے کے منتظر ہیں۔ کوئی کامیابی جس کیلیے آپ دن رات محنت کر رہے ہیں لیکن وہ آپ کے مقدر میں نہیں آتی،
تو سورةالملک آپ کو بتاتی ہے کہ “اللہ تعالیٰ کے اندازے کبھی غلط نہیں ہوتے وہ ہر کام کو ایک خاص وقت پہ کرتا ہے”
(سبق 13 صفحہ 5، 6، 8)

تبصرہ : یہاں پر العلم سے مراد قیامت کے وقوع کا علم ہے اور اس پر العلم پر موجود ال دلالت کر رہا ہے۔ اپنے کورس میں (افمن یمشی مکبا) کی تفسیر میں محترمہ کہتی ہیں “امید ہے آپ سبق کو سبق کے سیاق وسباق میں ہی رکھ کر پڑھیں گے”۔۔۔۔ محترمہ، قران مجید اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس میں تحریف سے گریز کیا جائے اور اسے اس کے سیاق و سباق میں رکھ کر ہی پڑھا جائے۔
نیز قران مجید کی آیات جو کفار کے بارے میں نازل کی گئی ہوں ان کو مسلمانوں پر زبردستی فٹ کر دینا یہ درست نہیں ہے بلکہ اس کا باقاعدہ ایک طریقہ اور حدود وقیود ہیں۔ اہل علم اس موضوع پر شیخ مساعد الطیار کا مقال بعنوان : “الاستشھاد بالآیات فی غیر ما نزلت فیہ وتنزیل آیات الکفار علی المومنین” پڑھ سکتے ہیں۔ مرکز التفسیر کی ویبسائٹ پر موجود ہے۔

آیت نمبر: 30

قُلْ أَرَأَيْتُمْ إِنْ أَصْبَحَ مَاؤُكُمْ غَوْرًا فَمَن يَأْتِيكُم بِمَاءٍ مَّعِينٍ

اس آیت میں ماء کا معنی رزق ٹیلنٹ اور حسن وغیرہ سے کرتی ہیں چـنانچہ فرماتی ہیں :

“پانی رزق بھی ہے اور علم بھی۔ یہ آپ کا ٹیلنٹ بھی ہے۔
“غورا” (کسی چیز کی گہرائی، پانی کا گہرائی میں جذب ہو جانا یا زمین میں واپس چلے جانا) کا لفظ بتاتا ہے کہ یہ پانی اس شخص کا نہیں تھا جس کے کنویں میں وہ موجود تھا، وہ کنویں کی زمین کا تھا جسے کسی بھی لمحے وہ واپس پی سکتی ہے۔
اسی طرح آپ کا علم، ٹیلنٹ کسی بھی لمحے واپس لیا جاسکتا ہے۔ تو ایسے میں کون ہے جو آپ کے پاس ایسا علم، ٹیلنٹ یا صلاحیت لائے جو گدلا نہ ہو بلکہ شفاف ہو اور آپ کو سیر کر دے” (سبق 14 صفحہ 21)

تدبر کے نام پر تحریف کے علاوہ بھی کئی دلچسپ لطائف ہیں مثلا ایک جگہ (ان الذین یخشون ربھم بالغیب) کی تفسیر میں مولویوں کو نشانہ بناتے ہو‏‏ئے کہتی ہیں : “اللہ کا ڈر یہ نہیں ہے کہ ھائے میں نے نماز نا پڑھی تو اللہ مجھے آگ میں ڈالے گا، ہائے میرے نمبر کٹ جائیں گے، نہیں، یہ سب مولویوں کی باتیں ہیں جو انہوں نے لوگوں کو ڈرانے کے لیۓ ایجاد کی تھیں” ، مگر ایک جگہ اپنی اللہ تعالی کی معرفت کے مصدر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں : “جو لوگ دین کی تبلیغ سخت احکامات سے کرتے ہیں یہ وہ ہیں جو خود نہیں جانتے کہ اللہ کون ہے مجھے اج سے کئی برس پہلے ایک کیتھولک لڑکی نے بتایا تھا کہ اللہ کون ہے ان کے دین میں وہ اللہ کو گاڈ کہتے ہیں لیکن ہے وہ ایک ہی اللہ نصاری یعنی کیتھولک مسلمانوں کے سب سے قریب ہوتے ہیں عقیدے کے لحاظ سے اور ان کی بہت سی ویلیوز مسلمانوں جیسی ہوتی ہیں اس لڑکی نے کئی برس پہلے مجھے کہا تھا کہ اس کے نزدیک خدا کون ہے خدا وہ ہے جو محبت کرتا ہے جو مہربان ہے جو دوسرے انسانوں کے رحم کرتا ہے جو خدا سے محبت کرتا ہے وہ خدا کے جیسا بنتا جاتا ہے جیسے اپ اپنی دوستوں کی عادات کو نہ چاہتے ہوئے بھی کاپی کرنے لگتے ہیں جس کے ساتھ جتنا وقت گزاریں اس کے بعد کرنے کا انداز اس کی کچھ عادات اپ کے اندر خود بخود ا جاتی ہیں”۔

یہ چند مثالیں میں نے انتہائی چن کر ذکر کی ہیں جن کو ہر خاص وعام سمجھ سکے، وگرنہ عربیت کے حوالے سے ان کا سرے سے منہج ہی فاسد ہے۔
بنیادی طور پر ان کے سب سے بڑے مسائل تین ہیں۔

1۔ تدبر کی اصطلاح کے متعلق یہ تصور کے یہ قران مجید کے متعلق “کچھ بھی” کہہ دینے کا نام ہے۔ حالانکہ تدبر ایک شرعی اصطلاح ہے، اس کے اپنے اصول وقواعد اور ضوابط ہیں۔ اس متعلق مستقل تصنیفات اور مقالہ جات موجود ہیں جن میں شیخ مساعد الطیار، شیخ خالد السبت اور عبدالرحمن بن حسن حبنکہ المیدانی کی کتابیں علوم القران کے علماء اور طلبہ میں مشہور ومعروف ہیں۔

2۔ عربی زبان کا انتہائی سطحی فہم، ایک ڈکشنری کو سامنے رکھ کر اس میں لفظ کا مادہ دیکھتی ہیں، اور پھر اس کے مختلف معانی میں سے کسی بھی معنی کو، سیاق وسباق کی، قرانی لفظ کے صرفی باب اور اس کی خاصیات کی، سلف صالحین کی تفسیر کی پرواہ کیۓ بغیر آیت پر انتہائے بھونڈے انداز سے منڈھ دیتی ہیں۔

3۔ یہ سمجھنا کہ قران مجید کی ہر آیت کو زبردستی بتکلف ایک عام مسلمان کی زندگی سے جوڑنا ضروری ہے۔ اس کوشش میں وہ ہر اصول اور قاعدے کو بالائے طاق رکھ جاتی ہیں، بلکہ بالائے طاق کیا رکھنا ہے وہ سرے سے کسی قاعدے اور ضابطے کو مانتی ہی نہیں ہیں۔ کیونکہ قاعدے ضابطے اصول وغیرہ تو “تفسیر” میں ہوتے ہیں نا، تدبر تو ان تمام فارمیلٹیز سے آزاد ہوتا ہے۔

نصیحت :

آخر میں میں سب سے پہلے محترمہ کو یہ نصیحت کروں گا، کہ اللہ تعالی کی کتاب کے بارے میں اللہ سے ڈر جائیں۔ آپ محترم ہیں، لیکن اللہ کی کتاب کا احترام آپ سے زیادہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر علم کے قران مجید میں رائے زنی کرنے والے کو جھنم کی وعید سنائی ہے۔
میں ان تمام دین سے محبت رکھنے والے طلبہ وطالبات کو جو ان کورسز سے یا ان رومانوی ناولز سے “تفسیر اور تدبر” سیکھتے ہیں، یہ نصیحت کروں گا کہ دین کی اتنی بےتوقیری مت کریں کہ ایک ناول نگار خاتون کو مفسرہ سمجھ لیں۔ اور قران مجید کوئی ہنسی مذاق یا شغل میلے کی کتاب نہیں کہ اسے رومانوی ناولوں میں بیان کیا جائے۔
میری ان تمام لوگوں کو جو ان کورسز کو ریکمنڈ کرتے اور نشر کرتے رہے ہیں یہ نصیحت ہے کہ اب جبکہ آپ کے سامنے یہ بات کھول دی گئی ہے کہ یہ کورسز قران نہیں بلکہ تحریف قران پر مشتمل ہیں، تو اس عمل سے توبہ بھی کریں اور اپنی براءت کا اعلان بھی کریں تاکہ جو لوگ آپ کی وجہ سے اس سنگین چیز سے متاثر ہوئے ہیں وہ اس چیز سے مطلع ہو سکیں۔ کسی گمراہی کو عوام میں نشر کر کے، احساس ہونے پر خاموشی اختیار کر لینا اور اس کو مصلحت کا نام دینا یہ درست نہیں ہے۔ اور سب سے آخر میں مجھے ان اہل علم سے جو محترمہ کا دفاع کر رہے تھے، بلکہ ان کی “قران فہمی” کی تعریف میں رطب اللسان تھے، یہ عرض کرنی ہے کہ خود ان کورسز کا مطالعہ کریں، صرف ذاتی تعلقات اور حسن ظن کی بنیاد پر ایک ایسی رائے قائم مت کریں جس پر آپ کو اللہ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔ اگر قران مجید کو اسی طرح بازیچہ اطفال بنا دیا جائے اور تدبر کے نام پر اس کی ہر تعبیر اور تشریح کو حقیقت قرار دے دیا جائے تو آپ کے پاس سر سید احمد خان کی، غلام احمد پرویز کی اور دیگر گمراہ گروہوں کی قرانی تاویلات کا رد کرنے کی کوئی بنیاد باقی نہیں رہے گی۔ !
واللہ الموفق والھادی وھو یھدی الی سواء السبیل۔

سید عبداللہ طارق

یہ بھی پڑھیں: نظر رحمت سے محروم بد بخت