سوال (1410)
کسی انسان یا جانور کو بیماری میں سورۃ التغابن کے ذریعے دم کرنا کیسا ہے؟
جواب
شریعت میں خاص اس سورت کی ایسی کوئی خصوصیت بیان نہیں ہوئی، لیکن پھر بھی قرآن کریم چونکہ سارے کا سارا شفا ہے، لہذا اگر کسی آیت یا سورت کے دم کرنے سے شفا کا تجربہ ہو، تو اس سے دم کیا جا سکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔
کیونکہ دم کا اصول یہی ہے کہ جب تک اس میں کوئی کفریہ ، شرکیہ یا مبہم و مجہول الفاظ کا استعمال نہ کیا جائے، یہ جائز ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کو کہا تھا: ’اگر شرکیہ الفاظ نہ ہوں، تو ان وظائف میں کوئی حرج نہیں‘۔(مسلم:2200)
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
“وَفِي الْحَدِيثَيْنِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الرُّقْيَةِ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَيَلْتَحِقُ بِهِ مَا كَانَ بِالذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ الْمَأْثُورِ وَكَذَا غَيْرُ الْمَأْثُورِ مِمَّا لَا يُخَالِفُ مَا فِي الْمَأْثُورِ”. [نيل الأوطار :5/ 347]
’ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کے ساتھ ، یا مسنون اذکار، یا ایسے غیر مسنون اذکار ، جو شریعت کے خلاف نہ ہوں، سے دم کرنا جائز ہے‘۔
بعض صحابہ کرام نے اپنے تجربہ شدہ اوراد و وظائف اور دم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیے، تو آپ نے فرمایا:
“مَا أَرَى بَأْسًا، مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ”. [مسلم:2199]
’کوئی حرج نہیں، جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو، اسے پہنچانا چاہیے‘۔
امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’اس سے ثابت ہوتا ہے، کہ ہر فائدے مند دم جائز ہے‘۔ [شرح معاني الآثار4/326]
ان چیزوں کے حوالے سے صرف یہ خیال رکھا جائے کہ انہیں سنت کا درجہ نہ دیا جائے، کیونکہ کسی چیز کو سنت قرار دینے کے لیے اس کا حدیث سے ثابت شدہ ہونا ضروری ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ