سوال (4869)

سورۃ سبا آیت 13 میں ذکر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع جنات تماثیل (مجسمے) بناتے تھے، جب کہ تصاویر اور مجسموں کی ممانعت پہلی شریعتوں میں بھی ثابت بتائی جاتی ہے، کیا ان کا یہ عمل اُن کی شریعت میں جائز تھا؟ یا یہ محض زینت یا کسی مخصوص ضرورت کے تحت تھا؟

جواب

مفسرین نے لکھا ہے کہ دونوں طرح کی تماثیل اور مجسمے ہوتے تھے، اگرچہ روایات اسرائیلی ہیں، جو اختلاف ہے کہ وہ زیرو پر ہوتا ہے، پھر وہاں ان کی شرع میں یہ گنجائش موجود تھی، اس کی ممانعت نہیں تھی، ایسی کچھ مثالیں بھی مفسرین نے نقل کی ہیں، مزید یہ ہے کہ جو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پرندہ بناتے تھے، وہ بھی تمثال ہی تھی، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے پھونک مارتے تھے، وہ اڑ جاتا ہے، “شرع ما قبلنا” یہ ہماری شریعت سے پہلے کے مسائل ہیں، ہماری شریعت میں یہ جائز نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

تماثیل سے مراد بلڈنگ یا عمارتوں کے نقش و نگار بناتے تھے، یا نقشے تیار کرتے تھے۔ شیخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ نے یہی تفسیر نقل کی ہے۔
کیونکہ مجسمے وغیرہ کی تصاویر پہلی امتوں میں بھی جائز نہیں تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ:

“أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَنِيسَةً رَأَتْهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَتْ لَهُ مَا رَأَتْ فِيهَا مِنَ الصُّوَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أُولَئِكَ قَوْمٌ إِذَا مَاتَ فِيهِمُ الْعَبْدُ الصَّالِحُ أَوِ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا وَصَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّوَرَ، ‏‏‏‏‏‏أُولَئِكَ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ” [صحيح البخاري: 434]

ام سلمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبش کے ملک میں دیکھا اس کا نام ماریہ تھا۔ اس میں جو مورتیں دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ (یا یہ فرمایا کہ) نیک آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدتر ہیں۔
یہی بات مفسر قرآن عبد السلام رستمی نے بھی ذکر کی ہے۔

فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ