سوال (5800)
کیا یہ واقعہ ثابت ہے اور کہاں ہے کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک پیدائشی پاگل گالیاں بکنے والے شخص کے کان میں سورۃ المؤمنون کی آخری آیات پڑھیں تو وہ بلکل ٹھیک ہو گیا، پیارے نبی علیہ السلام نے فرمایا اگر یہ آیات صحیح عقیدے و یقین والا پورے یقین سے پڑھے تو اللہ تعالی اسکے راستے میں حائل ہونے والے پہاڑ بھی ھٹا دے؟
جواب
یہ حدیث امام ابویعلیٰ الموصلی(رحمہ اللہ) نے (مسند ابی یعلی 5045) میں روایت کی ہے:
حدثنا داود بن رشيد، حدثنا الوليد بن مسلم، عن ابن لهيعة، عن عبد الله بن هبيرة، عن حنش الصنعاني، عن عبد الله، أنه” قرأ في أذن مبتلى فأفاق، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ما قرأت في أذنه؟ قال: قرأت {أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا} [المؤمنون: 115] حتى فرغ من آخر السورة. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو أن رجلا موقنا قرأ بها على جبل لزال۔
قال الشيخ حسين سليم أسد: إسناده ضعيف،
سیدناعبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سخت امراض میں مبتلا بیمار کے کان میں سورۃ المومنوں کی آخری آیتیں (افحسبتم )سے آخر تک پڑھ دی، وہ اسی وقت اچھا ہوگیا. رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا کہ آپ نے اس کے کان میں کیا پڑھا؟
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے عرض کی کہ یہ آیتیں پڑھی ہیں.
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی جو یقین رکھنے والا ہو یہ آیتیں پہاڑ پر پڑھ دے تو پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے”
حکم: یہ حدیث ضعیف ہے، مسند ابی یعلی کے محقق علامہ حسین سلیم اسد نے اسے ضعیف کہا ہے۔
جبکہ علامہ ناصر الالبانیؒ نے بھی اسے سلسلہ آحادیث ضعیفہ میں درج کیا ہے۔ [حدیث نمبر: 2189]
فضیلۃ الباحث کامران الٰہی ظہیر حفظہ اللہ
ویسے اس روایت کا مفہوم آیت قرآنی ولو ان قرآنا سیرت به الجبال… کے بھی موافق ہے۔
کما كان قال ابو هریره “إقرؤو إن شئتم”
فضیلۃ الشیخ محمد نعیم راشد حفظہ اللہ