سوال (2685)

“اِذۡ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیهِمُ اثۡنَیۡنِ فَکَذَّبُوۡہُمَا فَعَزَّزۡنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوۡۤا اِنَّاۤ اِلَیۡکُمۡ مُّرۡسَلُوۡنَ”

«جب ہم نے ان کی طرف دو (پیغمبر)بھیجے تو انھوں نے ان دونوں کو جھٹلا دیا، پھر ہم نے تیسرے کے ساتھ تقویت دی تو انھوں نے کہا بے شک ہم تمھاری طرف بھیجے ہوئے ہیں»
اس آیت میں کے ترجمے سے “تقویت” کا مطلب کیا ہے، یہ سمجھا دیں اور اس کا بھی کہ”بے شک ہم تمہاری طرف بھیجے ہوئے ہیں”

جواب

پہلے دو رسول بھیجے تھے، ان کی تکذیب کی تھی، یعنی قوم والوں نے دونوں کو جھٹلا دیا ہے، پھر ہم نے دونوں کی مدد کے لیے تیسرا رسول بھیج دیا ہے، پھر ان تینوں رسولوں نے قوم والوں کو کہا ہے کہ ہم تمہاری طرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے تھے ۔۔
مفسر عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’یہ بستی کون سی تھی؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث میں کوئی صراحت نہیں۔ (بعض) مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد روم میں واقع شہر انطاکیہ ہے۔ پھر اس بات میں بھی اختلاف ہے کہ یہ رسول بلا واسطہ رسول تھے یا بالواسطہ رسول یا مبلغ تھے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مبلغ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہی نے بھیجے تھے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں میں سے تھے۔ قرآن کے بیان سے سرسری طور پر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ بلا واسطہ اللہ کے رسول تھے اور اگر یہی بات ہو تو ان کا زمانہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کا زمانہ ہونا چاہیے، کیونکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے بعد رسول اللہ ﷺ کی بعثت تک کوئی نبی یا رسول مبعوث نہیں ہوا، اور بستی کے نام کی تعیین یا رسول کے بلا واسطہ یا بالواسطہ ہونے کی تعیین کوئی مقصود بالذات چیز بھی نہیں کہ اس کی تحقیق ضروری ہو، مقصود بالذات چیز تو کفارِ مکہ کو سمجھانا ہے۔ کیونکہ کفارِ مکہ اور ان بستی والوں کے حالات میں بہت سی باتوں میں مماثلت پائی جاتی تھی۔‘‘ یہ رسول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے بھیجے ہوئے تھے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ ان پر وہی اعتراض کیا گیا جو اللہ کے دوسرے رسولوں پر کیا گیا کہ تم ہمارے جیسے بشر ہو۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں پر اس اعتراض کے بجائے وہ کوئی اور اعتراض کرتے۔

فضیلۃ الباحث افضل ظہیر جمالی حفظہ اللہ