سوال (6)

‏شیخ صاحب سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 سے میلاد النبی کے حوالے سے استدلال کرنا کیسا ہے ؟ اس کی وضاحت فرمائیں ۔
قُلۡ بِفَضۡلِ ٱللَّهِ وَبِرَحۡمَتِهِۦ فَبِذَٰلِكَ فَلۡيَفۡرَحُواْ هُوَ خَيۡرٞ مِّمَّا يَجۡمَعُونَ [يونس: 58]
آپ فرماؤ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت پر ہی خوشی منانی چاہیے ، یہ اس سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں۔

جواب:

مختصر میں یہ عرض کروں گا کہ اہل علم نے اس حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے ، میرے جیسے طالب علم نے بھی طاہر القادری کی کتاب میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب لکھا ہے جو ان شاءاللہ بآسانی محدث فورم کی ویب سائیٹ سے مل جائے گی ۔ جہاں تک میلادیوں سے بحث کا تعلق ہے تو فتویٰ ثنائیہ میں چار سے چھہ سطور کے اندر اس بحث کو سمیٹ دیا گیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ احناف بذریعہ استنباط اور استخراج اور اجتھاد سے یہ چیزیں اخذ کر رہے ہیں ، حالانکہ مقلد کو اس کی اجازت نہیں ہے مقلد اپنے امام کا قول پیش کرنے پر پابند ہے ، تقریباً تمام احناف نے اصرار کیا ہے کہ قول امام پر فتویٰ دینا واجب ہے لہذا اس حوالے سے احناف اپنے امام سے کوئی بات صحیح سند کے ساتھ ذکر کریں ۔یہ بات مولانا اشرف علی تھانوی نے خطابات میلاد میں لکھی ہے کہ صاحب اجتہاد کا دروازہ چوتھی صدی سے بند ہے ۔ اب تمام مسائل آئمہ اربعہ سے لینے ہیں ، انہوں نے متداول کتب کے نام ذکر کیے ہیں جیسے ھدایہ ، قدوری وغیرہ ۔ پھر اشرف علی تھانوی نے کہا ہے کہ ان کتب میں کہیں بھی مقلد کو استنباط اور اجتہاد کی اجازت کا ذکر نہیں ہے لہذا مقلد کو استنباط اور استخراج کی اجازت نہیں ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت سے میلاد النبی کا استدلال ان کے اصول کے خلاف ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ