سیدہ عائشہ رضی عنھا کی فہم و فراست

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی فہم و فراست اسلامی تاریخ میں ایک روشن مثال ہے، آپ رضی اللہ عنھا علم، فہم، اور بصیرت میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، آپ کی علمی گہرائی اور دینی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دینی مسائل میں آپ سے رجوع کیا کرتے تھے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست علم حاصل کیا اور آپ کی صحبت میں رہ کر دین کے باریک مسائل کو سمجھا، آپ نے نہ صرف احادیث کو روایت کیا بلکہ ان کی تشریح اور وضاحت میں بھی مہارت حاصل کی تھی، آپ کی علمی خدمات کا دائرہ وسیع تھا۔ آپ نے ہزاروں شاگردوں کی تربیت کی، جن میں مرد و خواتین، غلام و آزاد، سب شامل تھے۔ آپ کا حجرہ علم کا مرکز تھا جہاں دن بھر سوال و جواب کی نشستیں جاری رہتی تھیں، آپ نے نہ صرف علم کو فروغ دیا بلکہ خواتین کی تعلیم و تربیت میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی فہم و فراست، علمی بصیرت، اور دینی خدمات آج بھی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔
(1) “حجرہ عائشہ، علم کا منبع”:
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا” [سنن الترمذي: 3883، حسن]

«ہم اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب بھی کوئی حدیث مشکل ہوتی اور ہم نے اس کے بارے میں عائشہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا تو ہمیں ان کے پاس اس کے بارے میں کوئی جانکاری ضرور ملی»

(2) “امت کی فصیحہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا”:
موسی بن طلحہ بیان کرتے ہیں کہ:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَفْصَحَ مِنْ عَائِشَةَ. [سنن الترمذي: 3884، و قال الالباني: صحيح]

«میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح کسی کو نہیں دیکھا»

(3) “ام المؤمنین کا قرآنی فہم: ایک علمی ورثہ”:
عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لَهَا:‏‏‏‏ أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا [سورة البقرة آية: 158] فَوَاللَّهِ مَا عَلَى أَحَدٍ جُنَاحٌ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَذِهِ لَوْ كَانَتْ كَمَا أَوَّلْتَهَا عَلَيْهِ كَانَتْ لَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَتَطَوَّفَ بِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّهَا أُنْزِلَتْ فِي الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي كَانُوا يَعْبُدُونَهَا عِنْدَ الْمُشَلَّلِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ مَنْ أَهَلَّ يَتَحَرَّجُ أَنْ يَطُوفَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا أَسْلَمُوا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ؟ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا:‏‏‏‏ وَقَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا”‏‏‏‏‏‏. [صحيح البخاري: 1643]

«میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو سورة البقرہ میں ہے کہ صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہیں، اس لے جو بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کا طواف کرنے میں کوئی گناہ نہیں، قسم اللہ کی پھر تو کوئی حرج نہ ہونا چاہیے اگر کوئی صفا اور مروہ کی سعی نہ کرنی چاہے، عائشہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا بھتیجے ! تم نے یہ بری بات کہی۔ اللہ کا مطلب یہ ہوتا تو قرآن میں یوں اترتا ان کے طواف نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں، بات یہ ہے کہ یہ آیت تو انصار کے لیے اتری تھی جو اسلام سے پہلے منات بت کے نام پر جو مشلل میں رکھا ہوا تھا اور جس کی یہ پوجا کیا کرتے تھے، احرام باندھتے تھے، یہ لوگ جب (زمانہ جاہلیت میں) احرام باندھتے تو صفا مروہ کی سعی کو اچھا نہیں خیال کرتے تھے۔ اب جب اسلام لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ہم صفا اور مروہ کی سعی اچھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں آخر آیت تک۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو پہاڑوں کے درمیان سعی کی سنت جاری کی ہے۔ اس لیے کسی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ اسے ترک کر دے»

(4) ” سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھاف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات و اعمال کی محافظہ”:
مجاہد فرماتے ہیں کہ:

“دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا نَاسٌ يُصَلُّونَ فِي الْمَسْجِدِ صَلَاةَ الضُّحَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ بِدْعَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَ لَهُ:‏‏‏‏ كَمْ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَرْبَعًا، ‏‏‏‏‏‏إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَكَرِهْنَا أَنْ نَرُدَّ عَلَيْهِ. قَالَ:‏‏‏‏ وَسَمِعْنَا اسْتِنَانَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحُجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُرْوَةُ:‏‏‏‏ يَا أُمَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا تَسْمَعِينَ مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا يَقُولُ؟ قَالَ:‏‏‏‏ يَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرَاتٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏مَا اعْتَمَرَ عُمْرَةً إِلَّا وَهُوَ شَاهِدُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ قَطُّ” [صحيح البخاري: 1775, 1776]

«میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے، وہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے حجرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ مسجد نبوی میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عبداللہ بن عمر سے ان لوگوں کی اس نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ بدعت ہے، پھر ان سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ چار، ایک ان میں سے رجب میں کیا تھا، لیکن ہم نے پسند نہیں کیا کہ ان کی اس بات کی تردید کریں، مجاہد نے بیان کیا کہ ہم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے حجرہ سے ان کے مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ نے پوچھا اے میری ماں! اے ام المؤمنین! ابو عبدالرحمٰن کی بات آپ سن رہی ہیں؟ عائشہ ؓ نے پوچھا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہہ رہے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے تھے جن میں سے ایک رجب میں کیا تھا، انہوں نے فرمایا کہ اللہ ابو عبدالرحمٰن پر رحم کرے! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ خود موجود نہ رہے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں تو کبھی عمرہ ہی نہیں کیا»

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: اگست 2006 کی ایک روح پرور شام