سوال (1391)
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور یزید میں سے حق پر کون تھا ؟
جواب
یہ جو سوال ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور یزید میں سے حق پر کون تھا ، بات اصل میں یہ ہے کہ ان دونوں کا آپس میں اختلاف تھا ہی نہیں ، ہم دونوں کا موازنہ اس وقت کریں جب دونوں کا آپس میں اختلاف ہو ، یہ سوال اٹھانے والا جو طبقہ ہے ، ایک خاص مکتب فکر ہے ، ان سے کہیں کہ تمہیں قسم ہے تمہیں پیدا کرنے والے رب کی ! کہ تم اپنی زبانوں سے کہوکہ قاتلین حسین پر لعنت ہو ، وہ مرتومر جائیں گے ، اپنی زبان سے قاتلین حسین نہیں کہیں گے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو پتا ہے ، وہ یزید پر لعنت کریں گے ، وہ یزید پر لعنت بغض معاویہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کریں گے ، سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے نفرت کریں گے ، ان کا اصل سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شھادت نہیں ہے ، اس لیے کہ وہ اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ شھید کرنے والے کون تھے ، میں ذاتی طور پر فضیلۃ الشیخ صفی الرحمن مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ ان کے پاس کافی عرصہ بیٹھتا رہا ہوں ، شیخ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا تھا جو کچھ سیکھا ان میں ایک یہ بھی تھا کہ شیخ کی بات مختصر مگر بہت جامع ہوتی تھی ، انہوں نے واقعہ کربلا کے بارے جو کچھ بتایا تھا ، فہم مانتا ہے کہ حقیقت وہ ہی ہے ، جو ہمیں بتایا گیا ہے کہ اس کے اور حقیقت کے درمیان بعد المشرقین کا فاصلہ ہے ۔
میں ایک گزارش رکھتا ہوں کہ ہم مسجد میں بیٹھے ہیں ، ہمارا تعلق بھی مسجد سے ہی ہے ، ہماری مسجد کے باہر صبح صبح ایک لاش ملتی ہے ، جو بندہ باہر تھا اس کی لاش ہے ، اس کی گھڑی ، پیسہ ، جوتا یا چابی بھی مسجد سے ملتی ہے ، ہمیں کسی بھی تفتیش کرنے والے آفیسر کو بلانے کی ضرورت نہیں ہے ، ایک آدمی بھی مسجد اور اس کے متعلقہ لوگوں پر شک کرے گا ؟یا کسی سیکنڑوں نہیں ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے شخص پر شک کرے گا ، سادہ سوال ہے کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا گھوڑا ، تیر ، نیزہ ، زرہ اور دیگر تمام چیزیں کہاں سے ملی ہیں ، کوفیوں کے پاس سے ملی ہیں ، کوفہ سے آج بھی دمشق کا فاصلہ ہزاروں میل ہے ، تو کیسی عجیب بات ہے کہ نواسہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام چیزیں ملی کوفیوں کے پاس لیکن قاتل سینکڑوں میل دور بیٹھا ہوا ہے ، کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے ؟!
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
ہم وہاں موجود نہیں تھے اس لیے پتہ نہیں معاملہ کیا تھا ، البتہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ہمارے ایمان کا حصہ اور آنکھوں کے نور ہیں۔
اور دوسری طرف رہی بات یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی تو یزید کے متعلق اللہ ہم سے سوال نہیں کرے گا اس کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے ، جو سوال اللہ نے ہمیں حل کرنے کو دیے ابھی تک وہ ہی حل نہیں ہوئے ہیں ، لہذا پہلے وہ حل کرنا ضروری ہیں۔
(اگر کچھ کہنا ضروری ہی ہو اتنا کافی ہے)
ضروری بات :
اگر یزید کو دروازہ بنا کر کوئی ابو سفیان ، ہندہ و معاویہ بن سفیان رضوان اللہ علیھم اجمعین کو داغدار کرنے کی کوشش کرے تو پھر ہم یزید نامی دروازے کا پہرا بھی دیں گے۔
البتہ یزید ہمارے نزدیک کائنات کا سب سے مظلوم شخص معلوم ہوتا ہے ، وہ اس لحاظ سے کہ جس کا جی چاہتا ہے منہ اٹھا اس بے چارے کو آسانی سے گالی دے لیتا ہے ، ایسی لا یعنی بحث سے جس کا ہم سے سوال نہیں ہوگا بچنا چاہیے اور کسی پر لعنت کرنے میں زبان کو خراب کرنے کی نسبت اگر ان لمحات میں اپنے لئے استغفار کیا جائے جو بہت افضل عمل ہے۔
نوٹ :
بڑے بڑے علم کے سمندر نما علماء نے یہاں سکوت اختیار کیا ہے تو ہم کس باغ کی مولی ہیں لہذا فتوی کی نسبت تقوی ہمیشہ بہتر رہا ہے ایسے سوال کا جواب دے کر کونسا تمغہ امتیاز ملے گا۔
واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ