سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں فتوحات اسلامیہ
نام و نسب:
ابو عبد الرحمن معاویہ بن ابو سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس بن مناف بن کلاب قریشی اموی مکی رضی اللہ عنہ
والد:
ابو سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد الشمس قریشی اموی مکی رضی اللہ عنہ
والدہ:
ہند بنت عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنھا
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ امیر المومنین و کاتب وحی ہیں، آپ رضی اللہ عنہ فتح مکہ والے سال شرف بہ اسلام ہوئے ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ جنتی صحابی ہیں، آپ سیدنا سفیان بن حرب رضی اللہ عنہ کے بیٹے ہیں، آپ کو خال المومنین کا شرف حاصل ہے، سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کئی دعاؤں کے مصداق ہیں، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں دین مضبوط رہا ہے، اسلام میں اولین منصف بادشاہ کا شرف بھی آپ کے حصے میں آیا ہے۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے والا ملعون ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ من جانب اللہ منتخب شخصیت ہیں۔
مرویات معاویہ رضی اللہ عنہ:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی 163 روایات ہیں، جن میں 4 متفق علیہ ہیں، 4 کو امام بخاری بیان کرنے میں منفرد ہیں، 5 کو امام مسلم بیان کرنے میں منفرد ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بنو امیہ کے اعزاز کا خیال رکھا تھا، سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو ایک فوجی دستے کا سپہ سالار مقرر کیا تھا، سیدنا عمر رضی اللہ نے دمشق فتح ہونے کے بعد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو وہاں کا عامل مقرر کیا تھا، ان کی وفات کے بعد یہ عہدہ ان کے چھوٹے بھائی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو سونپ دیا گیا تھا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو پورے ملک شام کا والی مقرر کیا تھا۔
فتوحات اسلامیہ:
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور اپنے وقت میں جیسی کامیاب اور امت کے لیے موجب فوز و فلاح رہا ہے، حقائق تاریخ شاہد و عادل ہیں، اس خلافت کی برکت تھی کہ دین خالص رہا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے تجربے کار سپہ سالار تھے، بنی امیہ سے بڑھ کر کوئی خاندان مسلمانوں میں فاتح و مدبر نہیں گذرا، ظاہری و باطنی کوئی نعمت نہیں تھی جو امت مسلمہ کو اس دور میں میسر نہیں آئی۔ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس، الشام، عموریہ، شمشاط، ملطیہ، انطاکیہ، طرطوس، ارواڑ، روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کر دیے، سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے، اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے ”فتح قبرص“ کی خواہش آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ و افریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی، آپ رضی اللہ عنہ کے دور میں ہر طرف مادی ترقیاں، روحانی برکتیں تھی۔
امام ذہبی رحمہ اللہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
“أمير المؤمنين، ملك الاسلام” [سير اعلام النبلاء: 120/3]
“امیر المومنین اور بادشاہ اسلام”
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو “خلیفہ” بھی کہا ہے۔
[صحيح ابن خزيمة: 2408، و سنده صحيح]
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“ما رأيت رجلا اخلق للملك من معاوية” [السنة لأبي بكر الخلال: 637]
«میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر بادشاہت کے لائق کوئی نہیں دیکھا»
اختصار کو پیش نظر رکھ چند فتوحات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
(1) : ہندوستان کی سرحد پر حملے:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہندوستان پر دو اطراف سے فوج کشی ہوئی، ایک فوج مہلب کی سرکردگی میں کابل کو فتح کرتی ہوئی درہ خیبر کی راہ سے سرزمین ہند میں داخل ہوئی تھی، اور دوسری فوج منذر کی ماتحتی میں مکران کے راستہ سے سندھ پر حملہ آور ہوئی، مہلب اور اس کے جانشینوں نے ہندوستان کی شمالی سرحد پر کئی مقامات فتح کیے۔
(2) : ترکستان کی فتوحات:
خراسان کے والی عبیداللہ بن زیاد نے ترکستان پر حملہ کرکے بہت سے شہروں کو قبضہ کرلیا۔
(3) : عہد معاویہ میں شمالی افریقہ کی فتوحات:
شمالی افریقہ میں مسلمانوں کے پہلے ہی کئی مقبوضات موجود تھے، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں ان کو اور زیادہ وسعت دی، عقبہ بن نافع نے سوڈان کے بعض حصے فتح کیے ہیں، معاویہ بن خدیج نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگوں کی معیت میں نبزرت، سوسہ اور جلولا کے شہر فتح کیے۔
(4) : اہل روم کے ساتھ جنگیں:
مسلمانوں کی سب سے بڑی دشمن روم کی عیسائی سلطنت تھی، رومیوں کو اپنے بحری بیڑے پر بڑا ناز تھا، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے بحری فوج کا قیام لازمی تھا، چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے اجازت لے کر ایک زبردست بحری بیڑا تیار کیا، جس نے عیسائیوں کو کئی سمندری جنگوں میں نیچا دیکھایا، رومیوں سے اکثر جھڑپیں ہوتی رہتی تھیں، اس لیے اسلامی لشکر کا ایک حصہ فقط اہل روم سے لڑنے کے لیے وقف تھا۔ ہر سال عیسائیوں کے ساتھ ایک بحری جنگ ضرور ہوتی، مگر قسطنطنیہ پر حملے کے سوا کوئی اور قابل ذکر معرکہ نہیں ہوا، سمندری جہاد کی سعادت، قیادت اور فضیلت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی۔ جیسا کہ یہ حدیث ملاحظہ ہو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
“كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَيَدْخُلُ عَلَى أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ فَتُطْعِمُهُ، وَكَانَتْ أُمُّ حَرَامٍ تَحْتَ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَطْعَمَتْهُ، وَجَعَلَتْ تَفْلِي رَأْسَهُ فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، وَهُوَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَرْكَبُونَ ثَبَجَ هَذَا الْبَحْرِ مُلُوكًا عَلَى الْأَسِرَّةِ، أَوْ مِثْلَ الْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ شَكَّ إِسْحَاقُ، قَالَتْ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ، أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهمْ فَدَعَا لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ، وَهُوَ يَضْحَكُ، فَقُلْتُ: وَمَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ غُزَاةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَا، قَالَ: فِي الْأَوَّلِ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ فَرَكِبَتِ الْبَحْرَ فِي زَمَانِ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَصُرِعَتْ عَنْ دَابَّتِهَا حِينَ خَرَجَتْ مِنَ الْبَحْرِ فَهَلَكَتْ” [صحيح البخاري: 2788]
«رسول اللہ ﷺ ام حرام ؓ کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے (یہ انس ؓ کی خالہ تھیں جو عبادہ بن صامت ؓ کے نکاح میں تھیں) ایک دن رسول اللہ ﷺ تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں کھانا پیش کیا اور آپ ﷺ کے سر سے جوئیں نکالنے لگیں‘ اس عرصے میں آپ ﷺ سو گئے‘ جب بیدار ہوئے تو آپ ﷺ مسکرا رہے تھے۔ ام حرام ؓ نے بیان کیا میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کے راستے میں غزوہ کرنے کے لیے دریا کے بیچ میں سوار اس طرح جا رہے ہیں جس طرح بادشاہ تخت پر ہوتے ہیں یا جیسے بادشاہ تخت رواں پر سوار ہوتے ہیں یہ شک اسحاق راوی کو تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ دعا فرمایئے کہ اللہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی پھر آپ ﷺ اپنا سر رکھ کر سو گئے‘ اس مرتبہ بھی آپ ﷺ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے۔ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کس بات پر آپ ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے اس طرح پیش کئے گئے کہ وہ اللہ کی راہ میں غزوہ کے لیے جا رہے ہیں پہلے کی طرح‘ اس مرتبہ بھی فرمایا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے بھی انہیں میں سے کر دے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ تو سب سے پہلی فوج میں شامل ہوگی (جو بحری راستے سے جہاد کرے گی) چناچہ معاویہ ؓ کے زمانہ میں ام حرام ؓ نے بحری سفر کیا پھر جب سمندر سے باہر آئیں تو ان کی سواری نے انہیں نیچے گرا دیا اور اسی حادثہ میں ان کی وفات ہوگئی»
معاویہ بن ابی سفیان اور قسطنطنیہ:
جب 41 ھ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کو استحکام حاصل ہوگیا تو انہوں نے اسلامی بحری بیڑے ترقی دینے کے کام آغاز کیا تاکہ وہ روم کے دارالحکومت قسطنطنیہ کو جو کہ مسلمانوں کے خلاف عداوت کا مرکز اور ان کے سر پر دائمی خطرے کی صورت منڈلاتا رہتا تھا کو نسیت و نابود کرنے پر قادر ہو سکیں، جن سرکش عناصر کو روی دولت اسلامیہ کے خلاف استعمال کرنے اور ان کی جاسوسی کے لیے استعمال کرتے تھے، انہوں نے 43 ھ کو سمندر میں بسر بن ارطات کی موسم سرما کی فوج کے ساتھ اطلاعاتی سرگرمیوں کا آغاز کیا، معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک واضح ہدف تھا اور وہ تھا قسطنطنیہ پر دباؤ ڈال کر دولت بیزنطیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرنا جو کہ اس پر قبضہ جمالیا جائے۔
اس زمانے میں قسطنطنیہ تمام عیسائیوں کا دل سمجھا جاتا تھا، اس کو فتح کرنے کے لیے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کار آزمودہ جرنیلوں کے زیر کمان ایک لشکر جرار روانہ کیا چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاتحین قسطنطنیہ کے بارے میں جتنی ہونے کی بشارت دی تھی، اس لیے متعدد صحابہ مثلاً: ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اس معرکے میں شرکت کی تھی۔
(5): روڈس اور ارواؤ کے جزائر پر قبضہ:
روڈس اور ارواؤ وغیرہ کے جزیرے ساحل شام کے نزدیک واقع ہیں، قبرص تو عثمانی عہد میں فتح ہوچکا تھا، بعد میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے روڈس اور ارواؤ پر قبضہ جمالیا اور یہاں مسلمانوں کی نو آبادیاں قائم کیں۔
(6): دولت امویہ مشرقی حصہ میں فتوحات معاویہ رضی اللہ عنہ
مسلمانوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت تک عراق اور نہرجیجون کے درمیانے علاقے کی فتح مکمل کرلی تھی جو کہ جرجان، طبران، خراسان، فارس، کرمان اور سجستان پر مشتمل ہے، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد فتوحات اسلامیہ کہ تحریک کو شدید زد پہنچی، پھر جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا دور آیا تو دولت امویہ کے مفتوحہ علاقوں کو واپس لینے اور فتح اسلام کی تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے نئے سرے سے بھرپور کوششوں کا آغاز کردیا تھا۔
خراسان، سجستان اور ما وراء النہر کی فتوحات:
جب حالات سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی گرفت میں آگئے تو انہوں نے عبداللہ بن عامر کو بصرہ کا والی مقرر کیا اور سجستان اور خراسان سے جنگ کی، عبداللہ بن عامر کی اس منصب پر تقرری ان کے اس علاقہ میں گزشتہ تجربہ کی وجہ سے کی گئی تھی۔ 42 میں ابن عامر نے عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب کو سجستان کا والی مقرر کیا، جب وہ یہاں آئے تو ان کے ساتھ عمر بن عبید اللہ بن معمر تیمی، عبداللہ بن حازم سلمی، قطری بن جاءہ اور مہلب بن ابو صفرہ ازدی بھی تھی۔ انہوں نے اس حملہ کے دوران زرنج نامی شہر کو صلح کے ذریعے فتح کر لیا اور اس کے سردار سے دو ملین درہم کی ادائیگی پر موافقت کر لی، بعد ازاں انہوں نے خواش (سجستان کا شہر ہے)، بست اور خشک وغیرہا شہروں کی طرف پیش قدمی کی اور انہیں فتح کر لیا، اسی طرح انہوں نے ایک ماہ کے محاصرہ کے بعد کابل کو بھی فتح کر لیا، معاویہ رضی اللہ عنہ نے سجستان کو ولایت قرار دیتے ہوئے اس کا والی عبد الرحمن بن سمرہ کو مقرر کر دیا ہے، جو کہ ان کی ان جیسی فتوحات کا صلہ تھا۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جو فتوحات اسلامیہ کا سلسلہ رک گیا تھا، وہ سلسلہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد سے دوبارہ نئے سرے سے شروع ہوگیا تھا، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں اسلام کو بڑی وسعتیں ملی تھیں، روافض اور نیم روافض کی طرف سے عہد معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تہمت تراشیاں اور افتراء بازی کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ رضی اللہ عنہ کا دور مسلمانوں کے لیے ایک فاتح و سنہری دور تھا۔ باقی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی تنقیص میں جو بیان کیا جاتا ہے، وہ سب بے بیناد ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے والا اپنا ٹھکانہ جھنم میں بناتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں صحابہ کی دفاع کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔
تحریر: افضل ظہیر جمالی