سوال (3008)

تابوت سکینہ کی وضاحت فرمائیں۔

جواب

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ

اور ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک اس کے بادشاہ ہونے کی نشانی یہ ہے کہ تمھارے پاس وہ صندوق آجائے گا جس میں تمھارے رب کی طرف سے ایک تسلی ہے اور اس میں سے چند باقی ماندہ چیزیں ہیں جو موسیٰ کی آل اور ہارون کی آل نے چھوڑا تھا، فرشتے اسے اٹھائے ہوئے ہوں گے، بے شک اس میں تمھارے لیے یقیناً ایک نشانی ہے، اگر تم مومن ہو
[سورۃ بقرۃ : 248]
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حافظ عبدالسلام بن محمد رحمه الله تعالى لکھتے ہیں
بنی اسرائیل کا حوصلہ بڑھانے کے لیے اور طالوت کی بادشاہت پر یقین میں اضافے کے لیے نبی نے طالوت کے بادشاہ مقرر ہونے کی ایک نشانی بیان فرمائی کہ وہ تابوت (جو دشمن تم سے چھین کر لے گیا تھا) جس کے ہوتے ہوئے تمہیں (دشمن کے مقابلے کے وقت) سکون و اطمینان حاصل رہتا تھا اور جس میں آل موسیٰ اور آلِ ہارون کی چند باقی ماندہ چیزیں تھیں، وہ تابوت تمہارے پاس آ جائے گا، جسے فرشتے اٹھا لائیں گے۔ چنانچہ اس تابوت (صندوق) کے آ جانے سے بنی اسرائیل کے حوصلے بلند ہو گئے اور وہ لڑنے کے لیے تیار ہو گئے
[تفسیر القرآن الکریم، تفسیر سورۃ بقرۃ : 248]

ﻭ ﺃﺧﺮﺝ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻋﻦ ﻣﻌﻤﺮ ﻋﻦ ﻗﺘﺎﺩﺓ (ﻓﻴﻪ ﺳﻜﻴﻨﺔ ﻣﻦ ﺭﺑﻜﻢ) ﺃﻱ: ﻭﻗﺎﺭ (ﻭﺑﻘﻴﺔ ﻣﻤﺎ ﺗﺮﻙ ﺁﻝ ﻣﻮﺳﻰ ﻭﺁﻝ ﻫﺎﺭﻭﻥ) ﻗﺎﻝ: ﻓﺎﻟﺒﻘﻴﺔ ﻋﺼﺎ ﻣﻮﺳﻰ ﻭاﻟﺮﺿﺮاﺽ ﻣﻦ اﻷﻟﻮاﺡ
[ﻣﻮﺳﻮﻋﺔ اﻟﺼﺤﻴﺢ اﻟﻤﺴﺒﻮﺭ ﻣﻦ اﻟﺘﻔﺴﻴﺮ ﺑﺎﻟﻤﺄﺛﻮﺭ : 1/ 364 ، مزید دیکھیے تفسیر الطبری: 5/ 324 ،325 ، تفسیر ابن أبی حاتم الرازی: (2488)2/ 467 تا469]

والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ