“تغلیب الاسلام بر تہذیب الاسلام”
“تغلیب الاسلام” بجواب “تہذیب الاسلام” از مولانا ثناء اللہ امرتسری کی اشاعت نو:
انیسویں صدی کا آغاز بر صغیر میں بین الادیان مناظرانہ گہما گہمی سے ہوا۔ ہندوں، مسلمان اور عیسائی ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما تھے اور بحث و مباحثہ کا میدان گرم تھا۔ یہ زمانہ سوامی دیانند سرسوتی کی قائم کردہ ہندو “اصلاحی” تحریک یا فرقہ” آریہ سماج” کے عروج کا تھا۔ جہاں اس تحریک کی ابتدا ہندو دھرم میں بت پرستی جیسی رائج شدہ “بدعات” کی اصلاح اور ویدوں کی طرف رجوع سے ہوئی تھی وہیں ہندو مذہب کی صداقت اور ویدوں کی قدامت ثابت کرنے کے لیے اس تحریک نے دیگر ادیان بالخصوص اسلام کے خلاف جارہانہ رویہ اختیار کرلیا۔ سوامی دیانند کی کتاب “ستیارتھ پرکاش” دیگر ادیان پر ہندو مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لیے لکھی گئی۔ اس کا چودھواں اور آخری باب اسلام پر اعتراضات کے لیے مختص کیا گیا تھا۔ کتاب کا جواب مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری نے بنام “حق پرکاش” لکھا اور سوامی جی کے اسلام اور قرآن مجید پر وارد کردہ اعتراضات کی عمارت مسمار کردی۔ اگرچہ دیگر کئی علماء نے بھی ستیارتھ پرکاش کے جواب میں کتب، رسائل اور مضامین لکھے لیکن جس قدر مقبولیت “حق پرکاش” کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کتاب کو حاصل نہ ہوسکی۔ مولانا امرتسری آریہ سماجیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے اور ان کے حملوں سے اسلام کا دفاع کرتے رہے۔ “مقدس رسول”, “حدوث وید”، “تُرک اسلام”، “تبرِ اسلام”، “مرقع دیانندی” ، “کتاب الرحمان بجواب کتاب اللہ وید ہے یا قرآن؟”، “سوامی جی کا علم و عقل” وغیرہا جیسی تصانیف اسی سنہری سلسلے کی کڑیاں ہے۔ اسی سلسلے کی ایک مشہور کتاب “تغلیب الاسلام بر تہذیب الاسلام” ہے۔ واقعہ یوں ہوا کہ عبد الغفور نامی ایک مسلمان مرتد ہوکر آریہ سماجی مہاشے دھرمپال ہوگیا اور اسلام پر اعتراضات کرتے ہوئے “نخل اسلام”، “ترکِ اسلام” اور “تہذیب الاسلام” جیسی کتب لکھیں۔ “ترکِ اسلام” کا جواب مولانا امرتسری نے “تُرک اسلام” سے دیا اور “تبرِ اسلام” میں “نخل اسلام” کی خبر لی۔ “تہذیب الاسلام” کے جواب میں مولانا امرتسری کی طرف سے “تغلیب الاسلام” لکھی گئی۔ “تہذیب الاسلام” دراصل نو آریہ دھرمپال کی کتاب “تَرک اسلام” کا ہی تسلسل تھا جس میں قرآن مجید کی آیات پر اعتراضات کیے گئے تھے۔ مثلاً آیت “وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْساً وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا” پر اعتراض کرتے ہوئے نو آریہ دھرپمال نے لکھا تھا کہ مسلمانوں کا خدا بڑا لڑاکا ہے جس کے تفصیلی جواب کے ضمن میں مولانا امرتسری نے رگ وید سے یہ منتر نقل کرکے مہاشے کے اعتراض کی کمر توڈ دی تھی
“اے انسانو! جس پرمیشور کے استقلال اور طاقت اس جہاں میں سب کاموں کا ذریعہ ہیں اور جنگ میں جس کی مدد سے دشمن کمزور ہوجاتے ہیں اس کی ستائش کرو”
مولانا امرتسری وید کے اس منتر کے تناظر میں دھرپمال پر مناظرانہ پھبتی کستے ہوئے لکھتے ہیں “بتلائیے، جس کی مدد سے دشمن جنگ میں کمزور ہوجاتے ہیں وہ کتنا بڑا جنگی ہوگا۔۔۔”
بہرحال کتاب قرآنی آیات پر وارد اعتراضات کا قلع قمع کرنے کے ضمن میں دیدنی ہے۔ اخیرا مہاشے دھرمپال گیارہ برس آریہ سماجی دین میں زندگی گزار کر ارتداد سے پلٹ کر مشرف باسلام ہوئے اور غازی محمود نام اختیار کیا۔
کتاب “تغلیب الاسلام” پہلی مرتبہ سن 1905ء چھپ کر منظر عام پر آئی تھی اور اس کے بعد یہ اہم کتاب دوبارہ نہیں چھپی۔ اب ڈاکٹر بہاء الدین سلیمان صاحب کی کوششوں اور الدار الاثریہ دہلی کے تعاون سے کتاب ہندوستان سے بطور سلسلہ “تاریخ اہل حدیث” کی چودہویں جلد دوبارہ منظر عام پر آچکی ہے۔ فجزاہما اللہ احسن الجزاء۔ ہندوستان میں کتاب الدار الاثریہ دہلی سے براہ راست طلب کی جاسکتی ہے۔