ان تمام ٢٠ وصیتوں کو بالترتيب آپ احباب کے گوشے گزار کیا جا رہا ہے جن میں سے اگر ہر ایک کو پایا نہیں جا سکتا تو ہر وصیت کو چھوڑا بھی نہیں جا سکتا ہے:
پہلی وصیت : آج کل مروجہ دھوکے میں مبتلا ہونے سے اجتناب کریں کہ آپ خود کو ہر چیز کا جاننے والا سمجھیں اور آپ اس گمان میں رہیں کہ ہر شبہ کا جواب آپ دے سکتے ہیں یقیناً یہ بڑی خطا ہے! آپ کے لئے حدود مقرر ہیں انہیں پہچانیں اور ان حدود کو پامال ہرگز نہ کریں، دنیا میں کسی فرد کو ہر بات کا مکمل علم نہیں ہو سکتا ہے، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں آپ کچھ چیزوں سے ناواقف ہیں، عیب کی بات یہ ہے کہ آپ خود کو اس دشوار مسئلہ میں پھنسا دیں جس میں آپ کو مہارت حاصل نہیں، گرچہ آپ کی ذہانت بہت قوی ہو پھر بھی آپ کُل مسائل کا احاطہ نہیں کر سکتے ہیں جیسے آپ کا جسم ایک محدود وزن برداشت کر سکتا ہے اسی طرح آپ کی عقل بھی محدود افکار کا بوجھ ہی اٹھا سکتی ہے۔
دوسری وصیت : پہلے اس شخص کے عقیدے اور منہج کی معلومات حاصل کریں جس کی کتابوں کا آپ مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔
تیسری وصیت : اپنے وقت کا خاص خیال رکھیں کیونکہ یہ سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔
چوتھی وصیت : اپنے اندر نقد و جرح کی مہارت پیدا کریں کیونکہ ہر چیز آپ یونہی حاصل نہیں کر سکتے ہیں، آپ کے دینی اعتقاد کے سلسلے میں جو بھی بات نہیں سیکھ سکے ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ اسکا علم حاصل کریں؛ حالانکہ ہر نقص سے آپ محفوظ نہیں رہ سکتے اسکے باوجود آپ بہت احتیاط اور دھیان سے علم حاصل کریں۔
پانچویں وصیت : اصولوں کو مضبوطی سے تھام لیں، وہ اصول جنہیں آپ جانتے ہیں : ارکان ایمان، حصول علم کے اصول و ضوابط ، شریعت محمدیہ کے استدلال و استنباط کے اصول، اور سب سے اہم قرآن و سنت محمد ﷺ کو لازم پکڑنا آپ پر واجب ہے کیونکہ یہی دونوں اصل اور حق ہیں اور جو کچھ بھی نبی ﷺ سے ثابت ہے وہی حق و سچ ہے اور اس کے خلاف ہے وہ باطل و جھوٹ ہے گرچہ آپ اسے پوری تفصیل سے جانتے ہوں یا اسکا مکمل علم نہ ہو، انہی بنیادی اصولوں کو پڑھتے، پڑھاتے اور درس سنتے وقت آپ کو ذہن نشین رکھنا ضروری ہے۔
چھٹی وصیت : کسی ایسے معتمد و معتبر شخص کو مقرر کریں جو آپ کی سلسلے میں رہنمائی کر سکے کسے آپ پڑھیں؟ کسے سنیں؟ کہاں سے ابتدا اور کہاں اختتام کریں؟
ساتویں وصیت : مطالعہ کے اختیار کے لئے درست راہ اپنائیں، صحیح منہج کو لازم پکڑیں اس لیے کہ جو بھی اصولوں سے محروم ہوا وہ سیدھے راستے تک پہنچنے سے محروم ہو گیا۔
آٹھویں وصیت : جلدبازی بالکل مت کریں ، آپ شب و روز میں بہت بڑے ماہر تعلیم یافتہ بننا چاہتے ہیں حالانکہ یہ ناممکن، علم تو مسلسل دنوں اور راتوں میں حاصل کیا جاتا ہے۔
نویں وصیت : کثرت دعا کا اہتمام کریں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے ہدایت و ثابت قدمی کی دعائیں کریں، اس اطلاع و رہنمائی کا مقصد یہ ہے کہ ہدایت کو پایا جا سکے چنانچہ اسکا سوال اسی سے کیا جائے جس کے ہاتھ میں ہے۔
دسویں وصیت : کیسے پر توجہ دیں نہ کہ کتنا پر! یعنی یہ اہم نہیں آپ نے کتنی زیادہ کتابیں پڑھ ڈالیں، اصل یہ ہے کہ آپ نے مطالعہ شدہ کتابوں سے کتنا فائدہ حاصل کیا، ورنہ فقط کثرت کتب سے آپ کی فکر وفہم میں تردد کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
گیارہویں وصیت : حقیقی معیار وحی الٰہی ہے، وہی مصدر ہے وہی اصل میزان ہے جس کی بنیاد پر افکار و آراء کو وزن کیا جاتا ہے وہی وہ محفوظ جائے پناہ ہے جو آپ کو تمام خطاؤں اور شکوک و شبہات سے نجات دلاتا ہے۔
بارہویں وصیت : پڑھنا محض ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے نہ کہ اصل مقصد ہے، لہٰذا اس بات سے گریز کریں کہ آپ کے ذرائع مقاصد میں تبدیل ہو جائیں۔
تیرہویں وصیت : صحیح عقائد سے اپنے نفس کو مضبوط کریں، کیونکہ موجودہ زمانہ میں پہلے کاموں میں سب سے پہلا کام صحیح عقیدہ سے خود کو آراستہ کرنا ہے۔
چودھویں وصیت : جو چیزیں آپ کے پاس ہیں ان تمام چیزوں میں سے آپ کا دین سب سے قیمتی شیء ہے، لہذا اس دین کے ساتھ نقصان اور گھاٹے کا سودا کرنے سے بچیں، اسلئے کہ اگر آپ کے پاس کوئی نہایت بیش قیمتی موتی ہو تو آپ اسے یونہی سڑک پر نہیں پھینک دیں گے، پس آپ کا دین اس دُرّ شہوار سے کم نہیں اور ہرگز اسکے ساتھ خسارے کا فیصلہ نہ کریں۔
پندرھویں وصیت : اپنے دل کو کبھی اسفنج کی طرح نہ ہونے دیں! بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں اکثر لوگوں کے دل اسفنج کے مانند ہوتے جا رہے ہیں یعنی اپنے دل کو شکوک و شبہات کو سمونے والا بنا لیتے ہیں، اگر آپ محض حق بات کا علم حاصل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں تو صرف وہی حاصل کریں، اگر آپ صرف درست دلیل پا سکتے ہیں تو وہی اختیار کریں، اور جب آپ دین کی معلومات میں تردد کا شکار ہونے لگیں تو اپنے دل کو شیشے کی مانند بنا لیں جو آپ حق و باطل صاف صاف دکھا سکے ہاں ایسا بھی نہ ہو کہ آپ صرف دل ہی کے پیرو بن کر رہ جائیں اور اپنے دل کو باطل کے لئے نرم بالکل مت ہونے دیں۔
سولہویں وصیت : وہ خوش قسمت ہے جسے بغیر مطالبہ کے نصیحت کی جائے، کتنے ہی لوگ ایسے موجود ہیں جو صحیح عقیدہ و منہج سلف والوں سے بنا کسی تعلق و تعارف کے احسان کا مطالبہ کرتے ہیں یا وہ خود انجان لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں، اور کتنے ہی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو منہ کے بل گر پڑتے ہیں وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ انہوں غلط لوگوں کا انتخاب کیا غلط دینی تعلیمات پھیلانے والوں کی پیروی کی چنانچہ آپ ان گرنے والوں میں ہرگز شامل نہ ہوں۔
سترہویں وصیت : سلامتی ایسی نعمت ہے جس کا مقابل کوئی چیز نہیں، شہرت کی چکاچوندھ کے نقصانات سے پرہیز کریں، توقف اختیار کرنا، تھوڑی دیر ٹھہر جانا اور احتیاط سے کام لینا بزدلی نہیں ہے بلکہ یہ تو بہادری، درستگی اور عقل سلیم کی بات ہے۔
اٹھارویں وصیت : دھیان رہے! شبہ میں مبتلا کر دینے والے کھوکھلے نعرے بازی آپ کو دھوکے میں نہ ڈال دے۔
انیسویں وصیت : شبہات کمزور دلوں کے لیے اپنے نشانہ سے کبھی نہ چوکنے والے تیروں کی طرح ہوتے ہیں، یہ بات آپ کے ذہن سے کبھی اوجھل نہیں ہونی چاہیے۔
بیسویں وصیت : شہرت کبھی بنیادی و معتبر معیار نہیں ہو سکتی ہے، صد افسوس کہ آج کے دن بیشمار لوگ مشہور ہیں، لیکن اگر انکی شہرت کا حقیقی جائزہ لیا جائے تو علمی و دینی مواد سے خالی ہوں گی، بعض شہرت یافتہ لوگ تو اصول و قواعد سے درکنار اصل بنیادی علم و معرفت سے بھی عاری ہوتے ہیں؛ اسی لیے دینی تعلیمات کے حصول کی خاطر آپ کا معیار ایسے یو ٹیوب، انسٹاگرام وغیرہ شوشل میڈیا پر پھیلے جھوٹے اور بے بنیاد مشہور و معروف شخصیات ہرگز نہیں ہونے چاہیے بلکہ اس دین کی حصول تعلیم کے لئے دین کے بہت ہی باریک بیں، جانکار اور ماہر و سمجھدار شخصیات کو معیار بنانا چاہیے ۔
آخر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ اس طرح کے گمراہ کن فتنوں سے میری، آپ سب کی اور تمام مسلمانوں کی بھی حفاظت فرمائے.. آمین یارب العالمین.

 

از: فضلية الدكتور صالح سندی/ حفظہ اللہ                   
ترجمہ: محمد ساجد کانپوری                                   
نظر ثانی : شیخ عبيد الله الباقي أسلم حفظه الله ورعاه