سوال

میری بیوی مجھ سے خلع اور طلاق لیے بغیر چھوڑ گئی ہے، البتہ اس نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ ضرور کیا تھا۔ اب اس نے کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لیا ہے لیکن مجھ سے ابھی تک طلاق نہیں لی اور نہ ہی خلع دائر کیا۔ نیز جب وہ مجھے چھوڑ کر گئی، اس وقت وہ حاملہ تھی۔ اب اس کے پاس ایک بیٹی ہے۔

اب مجھے اس سلسلے میں فتویٰ درکار ہے کہ

(1) کیا میں وہ بیٹی اس سے واپس لے سکتا ہوں؟ یا وہ دوسرے خاوند کی شمار ہو گی۔

(2) کیا اس کا آگے نکاح کرنا درست ہے؟ جبکہ میں نے اسے نہ طلاق دی اور نہ اس نے مجھ سے خلع لیا۔

(3) اور اب میرے لیے شرعاً کیا راہنمائی ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟

محمد اسلم، پی سی ایس آئی آر، لاہور

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

1۔ بیٹی کی نسبت:

جس شخص سے عورت کا پہلا نکاح ہوا تھا، بچی اسی کی شمار ہوگی۔ اس لیے وہ بیٹی آپ ہی کی ہے اور شرعاً آپ اسے واپس لینے کا حق رکھتے ہیں۔

2۔ طلاق اور خلع کے بغیر دوسرا نکاح:

جب تک عورت کو شوہر نے طلاق نہ دی ہو یا وہ عدالت سے خلع نہ لے لے، وہ شرعاً اسی شوہر کے نکاح میں رہتی ہے، لہٰذا اگر واقعتا ایسا ہے تو اس عورت کے لیے دوسرا نکاح کرنا جائز نہیں۔ ایسی حالت میں دوسرا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا اور یہ نکاح شرعاً باطل ہوتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

“وَالۡمُحۡصَنٰتُ مِنَ النِّسَآءِ”. [النساء: 24]

’’اور (تم پر حرام کی گئی ہیں) خاوند والی (شادی شدہ) عورتیں‘‘۔

البتہ چونکہ اس عورت نے آپ سے طلاق کا مطالبہ کیا تھا اور آپ نے طلاق نہیں دی، ممکن ہے اس نے پھر عدالت میں خلع کے لیے درخواست دی ہو، اور آپ تک نوٹس نہ پہنچا ہو۔ عدالت بعض اوقات شوہر کو یک طرفہ نوٹس بھیجتی ہے، اور اگر شوہر حاضر نہ ہو تو خلع کی ڈگری جاری کر دی جاتی ہے، چاہے شوہر کو علم نہ بھی ہو۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس نے عدالت میں ایڈریس غلط دیا ہو یا جان بوجھ کر ایسا کیا ہو، یا آپ نے نوٹس کو نظر انداز کیا ہو، ان تمام صورتوں میں بھی عدالت خلع کی ڈگری جاری کر دیتی ہے۔

بہر صورت   عدالت کی طرف سے خلع کی ڈگری جاری ہو جانے کے بعد  عورت  غیر حاملہ ہو تو ایک ماہ/حیض عدت گزار کر اور اگر حاملہ ہے تو وضعِ حمل کے بعد آگے نکاح کر سکتی ہے۔

لیکن اگر یہ بات سچ ہے کہ مذکورہ عورت کو آپ نے طلاق نہیں دی اور ابھی تک عدالت کی طرف سے خلع کی ڈگری بھی  جاری نہیں ہوئی تو آپ عدالت میں کیس دائر کر کے شرعاً، اخلاقاً اور قانوناً ہر اعتبار سے اسے واپس لانے کا حق رکھتے ہیں، کیونکہ اس صورت میں وہ آپ کے عقدِ نکاح میں موجود ہے اور اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ کہیں اور نکاح کرے اور اگر اس نے کر لیا ہے تو یہ نکاح باطل ہے، جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ